قیصر محمود عراقی
بات یہ نہیں ہے کہ والدین کی اپنی اولادوں پر گرفت نہیں رہی یا ان پر نظر رکھنے کا دور چلا گیا ۔ ایسا بھی نہیں کہ والدین سوشل میڈیا کی اہمیت اور نقصان سے آشنا نہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ ہماری نوجوان نسل کن کن طریقوں سے اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہی ہے ۔ بات یہ بھی نہیں کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی دوستیوں اور بالخصوص محبتوں نے ہمارے خاندانی نظام کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے ۔ بات یہ بھی نہیں کہ انٹر نیٹ کی دوستی کی وجہ سے دور دراز سے لوگ آکر ہمارے نوجوان بچوں کو اپنا لیتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ کس طرح آنکھیں بند کرکے اپنے بیٹے یا بیٹیاں غیروں کے حوالے کر دیتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں نہ کوئی مطالبہ۔ بس ہمیں اپنے بچوں کی صورت میں اس ترقی یافتہ ملک کا پاسپورٹ دکھائی دینے لگتا ہے، ہماری آنکھوں میں فوراً سہانے سپنے گھومنے لگتے ہیں۔ ایک لحاظ سے ہم لالچ کی انتہاتک جا پہنچے ہیں، دوسری طرف ہم اپنے بچوں کو اڑوس پڑوس کی بچیوں اور بچوں کے ساتھ شادی کیلئے تحقیق کی آخری حد تک جاتے ہیں ، فیملی کے بیک گرائونڈ اور شہرت کے ساتھ ساتھ سر کے بال سے پائوں کے ناخن تک اس میں کوئی نہ کوئی خامی ڈھونڈتے ہیں ، بہتر سے بہتر لڑکی ، لڑکا ڈھونڈنے کیلئے ہر قدم اٹھاتے ہیں اور اس ضمن میں کئی کئی سال بھی لگانے پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔ سب سے بڑھ کر المیہ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہونے والی محبت کے نتیجے میں وارد ہونے والی کسی اور بڑے شہر کی امیر لڑکیاں چاہے بڑی عمر کی بھی ہوںتو والدین کیلئے بلا تحقیق ، بغیر خاندانی بیک گرائونڈ ، بلا جہیز قابلِ قبول ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس علاقے کی لڑکی اگر ۳۰سال کی عمر کراس پار کرجائے تو لڑکے کی ماں وہاں رشتہ کرنے سے کتراتی ہے، چاہے اپنا بیٹا بھی عمر کی ایک مخصوص حد پھلانگ لگا رہا ہو۔ یہی عالم لڑکی والوں کا ہوتا ہے، بہتر سے بہترین کی تلاش میں بیٹی کی عمر بگاڑ دیتے ہیں،یہ ہے ہمارا مجموعی دوہرا رویہ اور اجتماعی بے حسی۔اصل مسئلہ ہمارے رویہ اور مزاج کا ہے ، ان ہی رویوں اور مزاجوں کی بدولت آج بھی ہمارے معاشرے میں ہزاروں جوان بچیاں شادی کے منتظر ہیں ۔ آپ سوشل میڈیائی محبتوں کو بے شک اپنے خاندان کا حصہ بنائیں اور بلاشبہ اس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن جس کے پاس سوشل میڈیائی محبت نہیں ہے، اس کے لئے رشتے کی تلاش میں اتنی ہی جوتیاں گھسیٹیں کہ آپ کا بچہ یا بچی عمر کی اس حد میں نہ داخل ہوجائے کہ کوئی اس کے طرف رخ نہ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی میں بہت سے مجبورلوگ دیکھتے ہیں مگر رشتوں کے انتظار میں بیٹھی جوان بچیوں کے والدین بالخصوص بیوہ مائوں سے بڑھ کر کسی کو مجبور نہیں پایا۔ لڑکے والے گھرانے پر گھرانے دیکھتے ہیں اور کسی نہ کسی بنیاد پر لڑکی کو مسترد کردیتے ہیں ، یو ں کتنی ہی لڑکیوں کے سر پر سفیدی آجاتی ہے ، والدین نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں، مائیں امید لئے دوسری دنیا سدھار جاتی ہیں، بیٹی والوں پر گذرنے والی قیامت کا احساس کوئی نہیں کرتا ۔ اسے ہمارے اجتماعی بے حسی کہہ لیں ،شعور کی کمی یا پھر ہماری آنکھوں پر بندھی لالچ کی پٹی۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کی ڈھلتی عمر سے بڑھ کر ہمیں رشتہ دیکھنے سے زیادہ دیگر ’’دکھ‘‘کھائے جاتے ہیں ،جس میں قد ، رنگت ، اسٹیٹس ، معیار اور امیدیں اہم ترجیحات ہیں ۔ اصل میں ہم کردار کے غریب لوگ ہیں ، جانتے بھی ہیں کہ بڑی عمر میں شادیاں بے شمار سماجی نا ہمواریوں کو جنم دیتی ہیں لیکن پھر بھی کسی کے سکھ اور آباد کاری میں مدد دینے کی بجائے ہمیشہ اپنا مفاد پہلے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم معاشرے میں اپنے ارد گرد ہی نگاہ دوڑائیں تو ہمیں۲۸سے۳۵سال کی عمر تک کی کتنی ہی بچیاں ملیں گی، جن کے رشتے نہیں ہورہے ہیں۔ مختلف سماجی وجوہات
کی بناپر یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور جب یہ تعداد بڑھے گی تو ظاہر سی بات ہے نوجوانوں میں سوشل میڈیائی محبتوں کے رجحانات پیدا ہونگے۔ سوشل میڈیا پر دوستی محبت میں بدلے گی تو بات گھر چھوڑ کر بھاگنے یا کورٹ میریج وغیرہ تک پہنچے گی۔ یہی حال لڑکوں کا ہے، ۳۰سے ۳۵سالہ لڑکے معاشرے میں مذکورہ کنواری لڑکیوں سے تعداد میں کم ہرگز نہیں ہونگی ، اگر اپنے ملک میں شادیاں نہ ہوں تو کیاہوا، ان کیلئے بھی ’’گوریاں‘‘تو ہیں ہی ، مگر واضح رہنا چاہئے کہ یہ اقدام مارڈرنائزیش نہیں بلکہ ہمارے لئے باعث عبرت اور شرمندگی کا ہوگا، بشرطیکہ اس کا ادراک کریں ۔ اگر ہم اس بات پر خوش ہونگے کہ ہمارا بچہ گوروں کے دیش میں جاکر راج کریگا تو یہ ہماری بھول ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں جلد نہیں تو بدیر ضرور ہوگا ۔ کئی والدین اس تجربہ سے گذربھی چکے ہونگے لیکن جب تک یہ احساس ان میں بیدار ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیٹیوں والوں کے دُکھ یا پریشانی بھی عجیب ہوتی ہے ، بیٹی جوان ہوجائے تو اس کے ہاتھ پیرپیلے کرنے کی پریشانی ، نسبت طے ہوجائے تو اسے رخصت کرنے کیلئے ’’جہیز‘‘کے نام پر’’سامانِ آرام‘‘جمع کرنے کی پریشانی اور جب رخصت ہوجائے تو اس بات کی پریشانی کہ پتہ نہیں وہ نئے لوگوں کے ساتھ ایڈ جسٹ ہوبھی پاتی ہے یا نہیں ؟ وہاں اسے کوئی مسئلہ تو نہیں؟ شادی کے روز والدین اپنی چادر سے بڑھ کر پائو پھیلاتے ہیں اور بیٹی کو اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دیتے ہیں تاکہ وہاں سسرال میں اس کی ناک اونچی رہے، وہیں اس کا سسرا ل بھی خوش اور مطمئن ہو کہ وہ بہت کچھ ساتھ لائی ہے، اب وہ بہو رانی کی ’’چیزوں‘‘کی بنیاد پر اپنے خاندان میں سر فخر سے بلند کرسکتے ہیں، اسی طرح لڑکے والے بھی اپنی شان بڑھانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ لڑکی والوں سے بہتر معاملات کریں، جب تک ہم اس مائنڈ سیٹ کو شکست نہیں دیں گے اور دائرہِ ہوس سے باہر نہیں نکلیں گے، اپنے رویوں اور مزاج پر نظر ثانی نہیں کرینگے تو پھر سوشل میڈیائی محبتیں ہی نصیب بنیں گی اور آپ کو انہیں من و عن قبول بھی کرنا پڑیگا ۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حالات کا ادراک کریں اور کسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچنے کیلئے اپنے اپنے اسٹیٹس ، امیدوں اور ترجیحات کو اس مقام پر لائیں کہ معاشرے بعد ازاںہم پر ہنسنا نہ پڑے یا ہم محض میڈیا کی خبر نہ بن کر رہ جائیں ، اگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے تو یو ں ہی افرا تفری اور بے چینی کا شکار رہیں گے لیکن شاید ہم میں احساس ہی کی کمی ہے ،جسے خود میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
موبائل6291697668.
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)