بلاشبہ احساس خدا کا اعلیٰ ترین عطیہ ہے اور ایک انسان کے اندر خدا کے بندوں کے ساتھ ایثار و محبت،ہمدردی ، مروت ،اخوت و یکجہتی کا جذبہ ایک جیتے جاگتے ’’احساس‘‘ کا ہی نام ہے۔ حالانکہ تمام مخلوقات ِ خدا میں انسان ہی وہ مخلوق ہے جسےزندگی کے تمام معاملات کے تئیں ٹھیک و غلط ،اچھے وبُرے،سچھےو جھوٹے،حق و ناحق ،حلال و حرام کا احساس دامنگیر رہتا ہے،گویا یہ جذبۂ احساس نہایت مشکل کام ہے جس کے نتیجے میں بہت کم لوگوںمیں یہ جذبۂ احسا س زندہ رہتا ہےاور زیادہ تر لوگوں میں مردہ ہوجاتا ہے۔دیکھا جائے توآج کل ہر طرف ماحولیاتی آلودگی اور اس کے منفی اثرات کا شور ہے۔ فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی، زمینی آلودگی، شور کی آلودگی کو کیسے کنٹرول کیا جائے،اس پر زور و شور کے ساتھ باتیں ہورہی ہیں۔تاہم آلودگی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کا شور تو ہر سُو ہے لیکن ہم اس سے بالکل انجان بنے بیٹھے ہیں، حالانکہ اس آلودگی کو جنم دینے اور فرغ دینے والے کے مکمل ذمے دار توبذات خودہم ہی ہیں اور وہ ہے احساس کی آلودگی۔اس آلودگی کا چرچا ہر روز پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہوتا ہے، لیکن ہم چونکہ اپنی بے حِسی اور مادہ پرستی میں اس حد تک مصروف ہوچکے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جو کہ ہماری بنیاد ہیں۔ظاہر ہے کہ مادہ پرستی کے اس دور میں ہم ہر چیز کو پیسے سے تولتے ہیں، بے شک روپیہ پیسہ بہت کچھ ہے، لیکن سب کچھ تونہیں۔ اس بہت کچھ کو حاصل کرنے کے چکر میں ہم سب کچھ بھلا بیٹھے ہیں۔ وہ سب کچھ کیا ہے؟ وہ ہمارے رشتے ہیں، کچھ خون کے کچھ برادری کے، کچھ محلے داری کے،کچھ ہمسائیگی کے،کچھ نسبت کےاور کچھ اسلام کے۔ لیکن ہم ہر چیز سے نابلد ہیں۔ بیوی خاوند کی نہیں سُنتی ،بیٹی ماں کو کوستی ہے،بیٹا والد پر ہاتھ اٹھا رہا ہے،جائیدادکے لئےبھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے ،اوربھائی جائیداد میں اپنی بہن کا حصہ دبائے بیٹھا ہے۔اس سب سے ہم کیسے باہر نکلیں گےاور کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟بڑا آسان سا سوال ہے اور اس کا جواب بھی ویسے تو بہت آسان ہے، لیکن ہم اس کا جواب تلاش کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں، جو جیسے ہے ویسا ہی چلتا رہے، بلکہ جو جیسے ہے وہ ویسے نہ چلے بلکہ ہماری مرضی سے چلے۔ ہم تو ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں کسی کو اچھی راہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی صدقہ ہےاور ہمارے باہمی رشتوں کے تقدس کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔قرآن کہتا ہے،’والدین کو اُف تک نہ کہو‘۔ لیکن ہم اپنی اَنّا میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے روز سڑکوں پر نکلتے ہیں، فرائض کی بات کوئی نہیں کہتا۔ حضورِ اکرم ؐ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو، اپنے بھائی کےلئےبھی وہی پسند کرو۔ لیکن ایسا کون کرے، سب کو اپنی تجوری پسند ہے۔شوہر کی تعظیم کےلئےیہاں تک بات کی گئی کہ اگر اللہ کے بعد کسی کو سجدہ کا حکم ہوتا تو بیوی کو حکم دیا جاتا، وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ شوہر کو تلقین کی گئی کو وہ روپیہ پیسہ جو وہ اپنی بیوی پر لگائے گا، وہ بھی صدقہ میں شمار ہوگا۔لیکن آج کل شاید ہی کسی کی ایسی سوچ ہو۔ ہمسائیوں کی بات کریں تو اسلام نے اتنی تاکید کی (حدیث کے مفہوم کی روشنی میں) اگر کوئی سالن پکاؤ تو شوربہ زیادہ کرلو اور ہمسائے کے گھر بھی سالن بھیجو۔ آج کون ایسا کرتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔تو پھر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم احساس کی آلودگی سے آلودہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ یہ آلودگی ہماری اسی فرسودہ سوچ، لالچی طبیعت کا نتیجہ ہے۔ ہم اگر دین ِ اسلام کی ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہوجائیں جن میں ہمارے فرائض کی بات کی گئی ہے تو یقین مانئے، ہم سب کے حقوق بالکل سیدھے ہوجائیں گے،احساس کی آلودگی دور ہوگی اور ہمارے سب کام آسان بن جائیں گے۔