اصول عمرانیات کے مطابق ایک اچھے شہری کی شناخت اس امر میں موجود ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک اپنے فرائض اور حقوق کی ادائیگی و پاسداری میں پابند ومستعد ہے ۔ وہ کہاں تک اپنی سماجی اورشہری ذمہ داریوں کو نبھانے میں فعال ہے ۔ وہ اپنے معاشرے کی اجتماعی فلاح وفلا ح میں کتنا فکر مندہے اور کیا وہ اپنے معاشرے کے افراد کے دُکھ درد میں شریک بھی ہے ۔اس نقطۂ نگاہ سے آج جب ہم اپنی اس وادیٔ جنّت نشان پر نظر ڈالتے ہیں تو صورت حال بالکل مختلف بلکہ تکلیف دہ دکھائی دیتی ہے ۔ ہمارا سماجی اور اجتماعی شیرازہ منتشر ہوتانظر آرہاہے۔ انفرادی سطح سے اجتماعی شعور تک ہر شہری ، دیہاتی ، دفتری ، عوام اور خواص، غرض معاشرے کے تانے بانے سے منسلک اجزا ء وافراد کے اندر شہریت ومدنیت کا احساس زوال واِدبار کی طرف گامزن ہے ۔نصف صدی سے زائد عرصے میں تعلیم ، تدریس اور تحقیق کے شعبوں میں کافی وسعت پیدا ہوگئی ۔شعبۂ تعلیم میں بڑے پیمانے پر توسیع کا عمل جاری ہے ۔سو کے قریب کالج تین یونیورسٹیاں اور ہزاروں سرکاری وغیر سرکاری تعلیمی ادارے درس وتدریس کے ذریعے علم کی روشنی عام کرنے میں مصروف ومشغول ہیں،لیکن علم اور تعلیم کے جو مثبت اثرات سماج کی اجتماعی زندگی پرمرتب ہوجاتے ہیں، اس کے دُور دور تک آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔راہِ عام کوہڑپ کرنا ،اس پر غیر قانونی تعمیرات کے لئے سیاسی اثر ورسوخ کا سہارالینا ، سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر جمع کرکے رکھ دینا، سرراہ اپنی کاریا میٹاڈار کھڑی کرنا، دوران ڈرائیورنگ موبائل فون اور ٹیپ ریکارڈ گانوں سے محظوظ ہونا ، لاکھوں کنال کاہچرائی کو اپنی اراضی کا حصہ تصور کرنا، دفاتر میںرشوت کے پیسے کو حلال جاننا،دفتروں میں کام چوری کے ریکارڈمات کردینا ،ہسپتالوں میں مریضوں سے عدم دلچسپی دکھاکر انہیں اپنے پرائیوٹ کلینکوںپر آنے کے لئے کہنا،تین سوروپے کی چیز پر نو سو ننانوے کی مہر لگاکر انتہائی درجے کی گراں فروشی کرنا، جعلی ادویات فروخت کرکے انسانی حیات کے ساتھ کھلواڑ کرنا،دھن دولت کے انباراَکٹھا کرنے کے لئے ملاوٹ کی بدترین مثالیں قائم کرنا، سبز سونے کی دولت کو نیلام کرکے پوری فیملی کے ساتھ مذہبیت کا ڈھونگ رچانا ، دریا کے کناروں یا خالصہ سرکارپر قبضہ کرکے ان پر عبادت گاہیں تعمیرکرنا ،جہلم کے پانی کو ہزاروں لاکھوں بیت الخلائوں کی غلاطت اور کوڑے کرکٹ سے آلودہ کرنا ، کوچہ بہ کوچہ کوچنگ کے نام پر کروڑوں روپے ماہانہ کمانا اور دیگر ہزاروں حیلے بہانے تراش کرمصنوعی عزّت اور جاہ حشمت حاصل کرنا ایک خفیف استثنٰی کو چھوڑ کر ہم سب کا شعارِ زندگی بن گیا ہے ۔شہری زندگی کا رکھ رکھائو ، دبائو ، مصنوعی اورفرضی تفوق کا انفکشن دیہاتی زندگی پر بھی ہواہے ۔ احساسِ ذمہ داری ، شہری شعور اور فرائض کی پاسداری کا جذبہ تعلیم کے پھیلائو کے ساتھ مٹتا نظر آرہاہے۔کشمیر میں ہزاروں مقامات ایسے ہیں جہاں کسی شخص نے ایک مکان تعمیر کیا یا کسی ٹھیکہ دار نے پُل یا کلوارٹ پایۂ تکمیل تک پہنچایا لیکن مکان کے اندر سے بچا کھچا مواد اور کوڑا کرکٹ راہِ عام پر ڈھیر کرکے چھوڑ دیا ۔ادھر ہمارے یہاں ایسا مستحکم انتظامی عملہ نہیں جو اس قسم کی غیرذمہ داری کے مرتکب شخص یا ٹھیکیدار پر جرمانہ عائد کرے۔ سرینگر شہر کی اہم سڑکوں پر دن بھر درجنوں گائے اور گھوڑے آرام فرماہوتے ہیں ۔بٹوارہ سری نگر میں یہ صورت حال تو زیادہ ہی افسوس ناک ہو تی ہے کہ صبح سے شام تک درجنوں گائیں سرِراہ سوئی ہوئی ہیں ، چنانچہ دو ماہ پہلے شہر کے سب سے بڑے حاکم کو میں نے فون پر مطلع کیا۔ ایک دودن یہ جانور غائب نظر آئے لیکن آج صورتحال پھر جیسی کی ویسی ہے ۔ ہرمعاملے میں ہم انتظامیہ کو ہی موردِ الزام نہیں ٹھہراسکتے ہیں ۔مالک ِ چوپایہ نے اپنے مملوک سے دودھ بھی حاصل کیا ،بار برداری کا کام بھی لیا، اس کا بول وبراز کھیت کھلیان میں پہنچا بھی دیا ۔ اب اس کی دیکھ ریکھ کے بجائے اسے سرِ راہ دن بھر کھلا چھوڑ دیا ہے ۔ با ت دراصل یہ ہے کہ احساسِ شہریت مفقود ہوچکاہے اور ہم سب نفسانفسی اور خود غرضی کے دائروں میں محدود ہوچکے ہیں ۔
سرینگر شہر کے بیچوں بیچ تنگ گزرگاہوں سے جس انداز میں سومو اور تویرا رواں دواں ہوتے ہیں ،بغیر لائسنس نو عمر لڑکے موٹرسائیکلوں پر جو خونین رقص کرتے نظر آتے ہیں اور نیشنل ہائی وے پر جو رقص بسمل دیکھنے میں نظر آتاہے ، اس سے ہرذی شعور اور سوسائٹی کے صاحب ِ دستار لوگ کافی پریشان ہیں ۔اس عوامی غیر ذمہ داری کا تدارک چند وزراء اور پولیس کے اہلکار کیسے کرسکتے ہیں ؟ راستے پر ایک ضابطے کے مطابق چلنا اور قوانین کی پابندی کو زیر نظر رکھناراہ گیروں اور مسافروں کو ہرنوعیت کی پریشانی سے نجات دے سکتا تھا چونکہ ہم لوگ دنیاداری او رفریب کاری کے گرداب میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ راہِ عام کے تحفظ کا خیال، راستے پرچلنے کے آداب، اپنے ماحول کو آلودگی سے صاف وپاک رکھنے کا احساس اوراسی قبیل کے دیگر معاشرتی لوازم وحقوق باجودِ تعلیمی اور سائنسی پیش رفت کے ہم سے رُخصت ہوتے جارہے ہیں ۔ یورپ سے واپسی پر جو اشخاص یا انسانی آبادی پر مشتمل سب سے بڑے ملک چین ؔکا اپنا سفرنامہ بیان کرتے ہیں، ان میں سے اکثر وہاں کے عوام میں شہریت کے احساس کو ، ہراعتبار سے قابل تحسین گردانتے ہیں ۔مغربی تہذیب ، عریانیت اور مشینی طرزِ زندگی سے لاکھ اختلافات سہی ،لیکن اپنے گرد وپیش ، اپنے دفاتر ،اپنے تعلیمی اداروں ، اپنے طبّی مرکزوں اور اپنی شاہراہوں کو وہ ہر قیمت پر صاف وشفاف رکھنے میں بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔امریکا میں چھ ماہ تک مقیم رہنے والے ایک پروفیسر نے جواَب مرحوم ہوچکے ہیں، ایک انتہائی نصیحت آموز واقعہ سنایا تھا۔ کہاکہ میں نیویارک کے ایک خوبصورت راستے سے سگریٹ پیتے گزررہا تھا۔ میں نے سگریٹ کا آخری کش لیا اور سگریٹ کا بچا کھچا حصہ سڑک پر دے مارا اور اپنے بوٹ سے اسے رگڑا ۔سڑک پر ہلکا سیاہ دھبہ نمودارہوا۔ میں چند قدم آگے بڑھا کہ پیچھے سے ایک امریکی آیا اور کپڑے کے چھوٹے سے ٹکڑے سے یہ دھبہ صاف کرنے لگا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے فوراً معذرت کی ۔مغربیوں کا ذہن یقیناً تاجرانہ اور مادہ پرستانہ ہے لیکن وہ اپنے ہر ایک لمحے کو تبدیلی ،ترقی او رتغیر پذیر کرتے ہیں اور یہاں ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جہاں تھے اب بھی وہیں ہیں بلکہ اس بھی گئے گزرے۔ہم لوگ اپنی شہری اور سماجی ذمہ داریوں کا سبق پڑھنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی ہماری پاس ایسی سیاسی قیادت او راخلاقی سیاست ہے جو ہمہ گیرسماجی اصلاحِ احوال کے لئے سامنے آکر تبدیلی ٔ زمان ومکان کا ترانہ گنگناتی ۔ ایسا لگ رہاہے کہ ہمارے معاشرے میں شعور اور احساسِ شہریت ،کیفیت اور صلاحیت پیدا ہونے میں صدیاں درکار ہیں ۔
موبائل نمبر:-9797291694