عمیرا فاروق ۔ شوپیاں
کائنات کی تخلیق جب سے ہوئی تب سے یہاں معرکہ حق و باطل جاری و ساری ہے ۔ اب اگر دیکھا جائے۔بحیثیت انسان ہمیں کس مقام پہ کون سے اقدامات اُٹھانے چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں’’کتاب زندگی‘‘ میں اُس کی رہنمائی فرمائی ۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم نے اِس کتاب زندگی جو کہ انسانیت کا پیغام لے کر انسانی تحفظ کا درس دیتی رہی اس کو کبھی کھولانہیں کہ آیا یہ ہم سے کیا مطالبہ کرتی ہیں ۔ برعکس اسکے کہ ہم جہالت کے پھندوں میں قید رہے جہاں سے نکلنا ہمارے لیے اب محال ہوگیا ۔ ہم انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعیت تک بدعتوں ،خرافات اور ایسے گناہوں کی لت میں ملوث ہے کہ حق کے سامنے ہماری آنکھیں اندھی ،کان بہرے اور زبان گونگی پڑ جاتی ہے ،کیونکہ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکامات کو جب ہم پڑھتے نہیں ،اپنی حالت کو بدلنے کا نام نہیں لیتے ،تو ہم میں انسانیت کہاں سے آسکتی ہیں ؟ کہیں مرد نے ذمہ دار ہونا چھوڑ دیا تو عورت برہنہ ہوکر اپنا اور اہل و عیال کا تحفظ بھول گئی۔ وہ چراغ محفل اور بازروں کی زینت بن گئی ،جس سے بے حیائی کے چرچے عام ہو گئے ۔جہالت نس نس میں سرایت کر گئی اور انسان ہو کر بھی ہمیں انسانیت نظر نہیں آتی اورہر طرح کی افرا تفری کا ماحول برپا کر رکھا ۔نتجتاً ہر انسان دوسرے انسان سے خوف زدہ ہے، امت فرقہ واریت کی شکار ہوگئی اوربدترین قوم ہم پہ مسلط کر دی گئی ۔نہ رشتہ داری کا لحاظ نہ خوف خدا رہا،بس اپنی ناقص طاقتوں سے خدا کی زمیں پہ خدا کے بندوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر آج ہم عالمی سطح پر انسانیت کا جائزہ لیں تو دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے ۔ انسان احساسات سے عاری رہ گیا ہے، امن و امان کا نام نشان مٹ گیا ۔ ہم اس علم کو حاصل کرنے کے خواہاں رہے اور اس چیز کو ترجیح دینے کے کوشاں رہے، جس نے انسانیت کو تباہ کر ڈالا ۔ طاقتور ایٹمی ہتھیاروں نے انسانیت کو اس قدر تباہ کیا کہ درندوں سے بھی بدتر زندگی آج کل لوگ گزار رہے ہیں ۔ اگرچہ دنیا کے طاقتور ملکوں نے بہت ترقی کردی لیکن علم ِ انسانیت سے محروم رہے، وہ لوگ خود درندے بن کر انسانیت کا چیر پھاڑ کر بیٹھے ۔ قرآن جو درس لے کر آیا، اس سے یہ لوگ محروم رہ گئے ۔ قران میں اللہ تعالی فرماتے ہیں جس نے کسی نفس کو ناحق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا ۔ اب آج اگر جائزہ لیا جائے، نہ جانے کتنے معصوموں اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ مفسد فی الارض ہیں نہ کہ مصلحِ قوم ۔ یہ فتنہ فسادوں کو برپا کرنے والی قوم کہلاتی ہے۔
یہ حال ہماری انفرادیت سے اجتماعیت تک کا ہے ۔ انسان کے قلب پہ گناہوں کے دھبے لگ جاتے ہیں تو وہ بے رحم بننا شروع ہوجاتا ہے اور اسکےذریعے عوام الناس مظلومیت کے شکار ہو جاتے ہیں ۔جہاں رفافت،عزت ،الفت اور انسانیت کا ، جہاں نہ اپنائیت کا لحاظ اور نہ ہی دل میں خوفِ خدا رہتا ہے ۔وہاں اللہ کے بندوں پر یہ زمین تنگ کر دی جاتی ہے ۔
آج کل کا انسان اتنا وحشی بن گیا کہ دوسرا انسان اسے تحفظ چاہتا ہے معمولی سی طا قت ہاتھ میں آنے سے دوسروں کو دھمکیاں اور انسانیت کو مٹانے کے منصوبے بنا رہا ہوتا ہے ۔ انفرادیت سے لے کر عالمی سطح تک ،بچے سے لے کر بوڑھے تک کوئی محفوظ نہیں ۔ انسان کب کہاں بیڑیوں کے ہاتھ شکار ہوگا اس کا بھی علم نہیں ہوتا ۔ ظالم انسانیت کے لبادے میں بظاہر ملبوس ہے لیکن اندرون اسکا وحشی ہے ۔ہر جگہ قتل وغارت گری کے بازار گرم ہیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم رسول مقبولؐ کے اُمتی ہونے کے ناطے یہ شعور نہیں رکھتے کہ ہمارے مسلمان بھائی تڑپ رہے اور سسک سسک کر وہ اپنی جانیں پیش کر رہے ہیں۔ عالمِ اسلام ابھی بھی ٹس سے مس نہیں ہورہاہے ۔ یہ دراصل ہمارے اندر عدِم شعور ،دینی علم وعمل کا فقدان ہے ،جس کی وجہ سے ہم بےغیرت اور بےحِس بن گئے ہیں ۔اس لئے عالم میں عدم انصاف ،عدمِ تحفظ ہم پہ سوار ہوگیا ۔
علمی اداروں میں تو ہم نے داخلہ لیا لیکن ہم نے وہاں کسی اور چیز کو مقّدم رکھا اور دین کو مؤخر کیا ۔ روحانی تربیت اور انسانیت سے ہم محروم رہے ۔ جب مغرب کی تقلید ہر طرح کی تو آج مسلماں ذلیل وخار ہیں ۔ایک طرف عورتوں نے آزادی مانگی دوسری طرف مردوں نے انکو ننگا ہونے میں تعاون کیا ۔ جس سے اخلاقی بدنظمی پھیل کر پوری امت کا نظام تباہ ہوگیا ۔ گوروں نے ہمارے دین سے فائدہ اٹھا کر ہم پہ جہنم کے فرشتوں کی طرح مسلط ہوگئے ۔ لیکن ہم ہیں کہ اپنے دین کو گنواں بیٹھے ۔ ہمارے اسلاف نے پوری دنیا پر حکومت کی، لیکن ہم انہی کے تعلیمات سے محروم رہ کر آج دنیا میں غلامی اور مظلومیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
علم انسان کے لاشعوری کو جگا دیتا ہے ،علم نہ ہی انسانیت کو مجروح کرتی ہے اور نہ غلط فیصلوں کا مفتی بناتی ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ علمِ نافع ہو وہ علم نہیں جو ایٹمی ہتھیار بنا بنا کر انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے، اس علم سے ہمارے رسول اکرم ؐ نے بھی پناہ مانگی ۔ ایک باعلم باصلاحیت اور عادل ہوسکتا ہے، بشرطیکہ علمِ نافع ہو ۔ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐ کا مطیع و فرمابردار ہو، وہ ظالموں کی طرح پھر انسانیت کو ظلمت کی رہنمائی نہیں کرے گا ۔
بحیثیت انسان بالخصوص امت وسط ہونے کی توسط سے اگر ہمارے دلوں میں انسانیت کا کچھ احساس موجود ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ انسانیت کی تعمیر و تشکیل دنیا میں ہوجائے۔ جہاں سے انسان کو انفرادی سطح سے لے کر عالمی سطح تک کا تحفظ حاصل ہوں تو ہمیں من وعن ویسی قوم تعمیر کرنی ہے جیسے ہمارے اسلاف کیا کرتے تھے ۔ اپنی نسل کو اسلاف کی تاریخ سے متعارف کرنا آج ہمارا فرض بن گیا ۔ ان کا ایمان و ایقان ،ان کی علمی جستجو اور اخلاقی تربیت سے آگاہی لازمی ہے تاکہ وہ خود کے اندر وہی صفت پیغمبری پیدا کریں جو دنیا کی اصلاح ،امن و اماں کا باعث بن جائے ۔ ظلم و بربریت والے معاشرے کو قبول کرنے کے بجائے اُس پاک معاشرے کی تشکیل کریں جس میں انسانیت کی وجاہت اور تحظ میّسر ہو ۔اس لئے ہمیں تماشائی بننے کے بجائے اپنے نسل کو آگاہ کرنا ہوگا تاکہ مستقبلِ نو کی روشن تعبیر معلوم ہو ۔ ورنہ اگر ہماری اسی بے غیرتی میں زندگی کا بسیرا رہا تو یہ پوری امت کے لیے المیہ ثابت ہوجاے گا ۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو خود کہتے ہیں’’ غم نہ کھاؤ ،تم ہی سر بلند ہوجاؤ گے، بشرطیکہ تم مومن ہو ۔‘‘ لیکن جب ایمان نکل جائے دلوں سے تو پھر چاہے انسان اسلحہ سے لیس ہی کیوں نہ ہو، اسکو فتح نہیں مل سکتی ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا غضب ان کے نافرمان بندوں کے لیے مختص ہوتا ہے ۔ لہٰذا نہ ہی ہم اللہ کے سامنے یہ حجت پیش کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ناقص اصلاح تھا ، اس لئےانسانیت کے محافظ نہیں بن پائے اور نہ ہی کوئی اور بہانہ ۔ جب باقی قوموں نے علم حاصل کرکے خود کا تخفظ پیش کیا ۔ دن و رات کی محنتوں سے نئے نئے ایجادات کئے، اگرچہ انکے لیے وہ وباء ہے لیکن وقتی تحفظ تو اپنی قوم کو دیا اور ہم ہیں کہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے، یہاں سے انسانیت کا خاتمہ ہورہا ہے اور عالم اسلام تماشائی کے مزّے لے رہے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک ملک بلکہ ہر ایک کے لیے افسوس و المیہ کا مقام ہے ۔لہٰذا اُمتِ رسولؐ ہونے کے ناطے ہم پر انسانیت کا امان و تحفظ فرض ہے ۔ہمیں ایک جھتہ کی طرح اتحاد برقرار رکھنا ہوگا تاکہ دشمن حاوی نہ ہو اور ہم ایک دوسرے کے لیے سایہ دار شجر کی طرح حفاظت کر سکیںتاکہ امت ہر طرح کے شر سے محفوظ سے رہیں ۔
[email protected]