بلا شبہ کسی بھی قوم کی ترقی ،فلاح وبہود،اتحاد وبقاء،باہمی اتحاد میں مضمر ہے اور اجتماعیت ہی کو اساسی کا درجہ حاصل ہے۔ آپس میںنفرت،عداوت ودشمنی، اختلافات اور عناد کو ختم کئے بغیرکوئی بھی معاشرہ یا قوم اپنے مسائل کو حل کرنے میںکامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں ہمارا ملک جہاں مختلف مذاہب اوربرادری کے اقوام پائے جاتے ہیں اور سیکولر قانون ہی ملک کا قانون ہے،لیکن بدقسمتی سےاس کو بگاڑ نے کی کوشش کی جارہی ہےاور مذہب ، ذات برادری اورکاسٹ کی بنیاد پر فرقہ پرستی کو ہوادی جارہی ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت جہاں روزی روٹی کی فکر میں پریشان،انتشار،عصبیت، آپسی دشمنیوں اور فضول خرچی، بے راہ روی، آواراہ گردی، نشہ ،سگریٹ، سوشل میڈیا کی بے ہودہ سائٹس اورمنکرات وفحش میں مصروف ہے۔وہیں بے دینی، رسومات وخرافات ا ور بدعات میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ہر میدان میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ایسا محسوس ہورہا کہ ملک کا مسلمان اپنے ایمان وتشخص کے ساتھ اپناوجود اور اپنی زندگی کھوچکا ہے۔ جسم میں تو حرکت ہے مگرروح مردہ ہے۔تعلیمی تناسب 2فیصد سے زیادہ نہیں اورزیادہ تر تعدادتعلیم کے آخری مرحلے تک پہنچتے پہنچتے تعلیم سے متنفر ہوکر کسی نہ کسی مشغلہ اور چھوٹے موٹے کاروبار میں لگ جاتی ہے اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کی جو محدود تعداد ہے ،اُس کا بھی بڑا حصہ اپنے دین سے ناآشنا اور ملی غیرت سے محروم ہے۔ گوکہ وہ بازارمیں،شادی بیاہ کی مجلسوں میں،لین دین کے معاملات میں، رشوت،سودخوری، دھوکہ دہی میں یکسان نظر آتے ہیں لیکن مسلکی معاملات پر کسی بھی تضاد پر ایک دوسرے کی رقابت میں کسی بھی حد کو پار کرنےمیںگریزاں نہیں ہیں۔ درحقیقت جب بھی ہم ملک کے مسلمانوں کے زوال اورکمزوری کے اسباب تلاش کرتے ہیںتو پتہ چلتا ہے کہ اُن کی اکثریت دین سے دور،مقصد زندگی سے غافل ہے ،نیز ان میں امتِ وحدہ میں ہونے کاتصور بھی ختم ہوچکا ہے اوروہ مختلف طبقوں، گروہوں، ٹولیوں، گروپوں اور مسلکوں میں تقسیم ہوکر عملی اتحاد سے کمزور اورناکام ہے۔بغور جائزہ لیا جائےتو اولاً تومسلمانوں کے لئے اپنے مسائل اورخطرات میں بے دینی، بے عملی کا عام ہونا ہے، مغربی کلچر نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے، والدین ذمہ داری سے غافل اور بے حس اوربے بس ہوگئے ہیں۔ اساتذہ ٹیچرس کی اکثریت ذمہ داریوں سے لاپرواہ ہے جبکہ ملک میں مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں اور بھولے بھالے مسلمان اور سرپھرے نوجوان دھوکہ باز مفادپرست سیاسی قائدین اور نام نہاد ملاؤں کے شکنجے میں ہیں۔ مسلمانوں میں فکری جمود وتعطل بڑھ گیا ہے،جذباتیت عجلت پسندی نے بھی مسائل کو خراب کردیا ہے۔ نوجوانوں کی تربیت او ران کی اصلاح اور ان کے مسائل پر کوئی فکر کرنے والا نہیں۔ مالدار اوردولت مند طبقہ میں اسراف، فضول خرچی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ نوجوانوں میں شراب نوشی، سگریٹ اورمنشیات کا چلن معمول بن گیا۔دینی مزاج رکھنے والوں میں شبہات اور بداخلاق افراد میں شہوات کے فتنے بڑھتے جارہے ہیں۔ اندرونی طور پر آپس میں تکفیری او رخوارج کے فتنے ،چہرے اورغاصب کے فتنے،عہدے اور مناصب پراپرٹی کے فتنے، عورتوں کے فتنے، جہیز کے فتنے، بے حجابی اور عریانیت کے فتنے، بدعات خرافات، رسومات کے فتنے،مخلوط نظام تعلیم کے فتنے، بدزبانی کے فتنے،فیشن پرستی،سماجی ، معاشرتی اور خاندانی وعائلی مسائل کے فتنے موجودہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ امت کے ذی شعور، اہل علم دانشورحضرات سرجوڑ کر بیٹھیں اور مذکورہ امورپر غوروفکر تبادلہ خیال کرتے ہوئے لائحہ عمل ترتیب دیں۔ سب سے پہلے ایمان باللہ کے سبق کو پڑھیں ،سمجھیں اور اس کی تجدید کریں، الگ الگ رہنے کے بجائے سب سے مل کر سب کے اتحاد و مشورے سے کام کریں۔ اس میں بڑی طاقت بھی ہے اوربرکت بھی۔دوسری بات یہ کہ مسلمان خواب غفلت سے بیدارہوجائیں، کیوں کہ غافلوں کی اللہ تعالیٰ مدد نہیں کرتا۔وہ مسلکی و جماعتی مسائل اورجھگڑوں کو اپنی حد تک ہی رکھیںاورملی، قومی اور ملکی مسائل میں متحد ومنظم اورایک موقف بنائیں،تبھی وہ کسی مسئلے کو حل کرنے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔