ڈاکٹر اشرف آثاری ۔سری نگر
(گذشتہ سے پیوستہ)
مفتی صاحب مصر کی سب سے بڑی اور دنیا کی قدیم ترین جامع الازہر سے تعلیم حاصل کرچکے تھے اور ملک کے بڑے بڑے دینی اور علمی اداروں کے ساتھ وابستہ رہ چکے تھے۔شیخ عبداللہ کی حکومت میں جب مصر کی الازہر یونیورسٹی کے رجسٹرارڈاکٹر حلیم محمود کشمیر کے دورے پر آئے اور درگاہ حضرت بل میں انہوں نے لاتعداد لوگوںکی موجودگی میںعربی میں تقریر کی اور شیخ عبداللہ نے جو سپاس نامہ پیش کیادونوںکا اردو ترجمہ ازہری ؔصاحب نے ہی کیا تھا ۔نکلتے وقت انہیں اور کہیں جانا تھا، مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اظہریؔ صاحب کا جوتا وہاں نہیں تھا جہاں انہوں نے رکھا تھا میں چونکہ ان کے ساتھ تھا مجھ سے میرا نائلن چپل لے کرپہن کر گاڑی میںبیٹھ کر ان کے ساتھ چلے گئے، میرا گھر قریب ہی تھا لیکن اتنی فرصت کہاںتھی کہ گھر سے کوئی اچھا ساجوتا نکال کر دے دیتا۔ مظاہر العلوم ، دیوبند،مدینت العلوم کے ساتھ رہے، جامعہ کشمیر کے ساتھ عمر بھر وابستہ رہے اور صدرِ شعبہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوگئے۔دوران ملازمت کئی بار حضرتؔ نے عبادات میں خلل کی وجہ سے ملازمت چھوڑنے کا ارادہ بھی کرلیا لیکن یونیورسٹی میں کچھ عزیزوں کے مسلسل اصرار پر ایسا نہ کرسکے۔حضرت ؔکی ملازمت کے دوران پیش آنے والے کچھ ناخوشگوار واقعات کا نہ چاہتے ہوئے بھی سرسری تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ۔جب شعبہ عربی میں صدرِ شعبہ کا عہدہ خالی تھا اور ازہری صاحب ہر لحاظ سے اس کے مستحق تھے لیکن انہیں وہ نہیں دیا گیا اور ان کے ساتھ سراسر ناانصافی کی گئی، یہ دراصل اس وقت کے وائس چانسلر صاحب کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہوا ،انہوں نے اپنے ایک عزیز کو راجستھان سے لاکر شعبہ عربی کا صدر بنا دیا۔ظاہر بات ہے یہ اقدام ہر شخص کو برا لگنا تھا کیونکہ یہ ناانصافی اور حق تلفی پر مبنیٰ تھا۔ اظہری ؔصاحب کو تو لگنا ہی لگنا تھا۔احقر ان چیزوں سے بالکل ناواقف ،یونیورسٹی حضرتؔ جی سے ملاقات کی غرض سے گیا جو احقر کا معمول بھی تھا، ان کے آفس میں اور ایک دو لوگ بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے جن کا شاید یونیورسٹی سے ہی تعلق تھا،احقرنے ماحول کو بھانپتے ہوئے ،اپنے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص سے ،اصل صورت حال کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے سرسری طور پر جانکاری دی ،پھر احقر نے حضرت ؔجی کی طرف مخاطب ہوکر پوچھنا شروع کردیا ،’’حضرت ؔآپ نے بتا دیا ہوتا تو عدالت کی طرف رجوع کر کے سٹے لاتے‘‘احقر نے پہلی بار حضرتؔ کو اتنے جلال میں دیکھا تھا ورنہ ہمیشہ چہرے پر تبسم بکھرا رہتا تھا اور ہلکے پھلکے انداز میں ہنسنے ہنسانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے یا پھر اکثر احقر سے ملاقات کے وقت ڈاکٹروں کی دوستی کے بارے میں فارسی کا ایک شعر ضرور سناتے تھے ،موبائل پر بات چیت کے دوران بھی یہی سلسلہ جاری رہتا،فرمانے لگے ڈاکٹر صاحب میں بہت بڑی عدالت میں گیا ہوں،وہاں سے بہت بڑا اورشدید فیصلہ آنے والا ہے۔‘‘ واقعی ایسا ہی ہوا ،اس عدالت سے اتنا شدید فیصلہ آیا کہ اس نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔اس طرح کے لاتعداد واقعات ہیں جن پر ایک نہیں کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔جن کا میں بہ نفس نفیس گواہ ہوں۔
حضرت شریفؔ صاحب ترالؒ کے مرشد حضرت رسول شاہ صاحب ؒنے جو مکتوبات، شریف ؔصاحبؒ کے نام مختلف مقامات سے تحریر فرمائے ہیں، ان کو حضرتؔ نے ہی جمع کرکے ’’نور عرفان‘‘ عنوان سے ایک ضخیم کتاب کی صورت میں شائع فرمایا ہے، جس کے آج تک دوتین ایڈشن چھپ چکے ہیں اور ان دنوں کتاب ناپید ہے۔ احقر نے اس کی کتابت کی غلطیاں درست کر کے ایک طویل پیش لفظ بھی لکھا ہے جو حضرت ؔکی اجازت کے ساتھ جلد ہی شائع ہونا تھا، چند دیگر مصروفیات کی وجہ سے ابھی تک یہ کام مکمل نہیں ہوسکا ۔اس کے علاوہ حضرتؔ کے فرزند اکبر مفتی نظام الدین ندوی اور احقر کی سالہا سال کی مسلسل و متواتر کوششوں اور بار بار اصرار پر حضرت ؔاصولی طور پر اپنی سوانح عمری چھپوانے کے لئے بھی راضی ہوگئے تھے اور یہ کام احقر کو ہی سونپا گیا تھا، وہ بھی آج تک مکمل نہ ہوسکا لیکن الحمد للہ ہم اس ضمن میں بہت سنجیدہ ہیں ۔اللہ رب العزت کو منظور ہوگا تو اس پر بھی کام شروع ہوگاانشاء اللہ ۔یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ شریف صاحبؒ اور کوثر صاحب افغانی دونوں نے ازہریؔ صاحب کو سجادہ نشینی عطا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن ازہریؔ صاحب نے درس و تدریس میں اپنی حد سے زیادہ مشغولیات کی بناء پر معذرت کی تھی۔لیکن دونوں کے ہاں آنا جانا قائم رکھا۔ احد صاحب سوپور اور سلہ صاحب بدسگوم کے پاس بھی جایا کرتے تھے۔
مفتی عبدالغنی الازہری کے شاگردوں اور مریدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہر جگہ پھیلی ہوئی اور موجود ہے۔ عرب ممالک کے طالبِ علم بھی حضرت جی سے حدیث و قرآن اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ضمن میں رابطے میں تھے، کچھ نے تو انہیں اپنے ہاں مستقل رہائشی سہولیات فراہم کرنے کی آفر بھی کی تھی۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے بعد حضرت ؔہی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے اسلامی اسکالر ہیں، جن کی شہرت ملکی سرحدوں کوعبور کرتے ہوئے دور دور تک پہنچی ہے اور جن کا شہرہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہےگا انشا اللہ ۔آپ حضرتؔ کے کسی بھی شاگرد یا مرید سے بات کروگے تو وہ حضرت ؔکے تدبر،اخلاق حسنہ، معاملہ فہمی،خلوص ومحبت،ایثار و قربانی اور سب سے بڑھ کر ان کی شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے پابند رہنے اور متعلقین کو پابندرکھوانے کی سعی میں لگے رہنے کی تعریفیں کئے بنا نہیں رہیگا ۔حضرتؔ کی ظاہری زندگی تو صاف و شفاف اور بڑے بڑوں کے لئے قابلِ تقلید تو تھی ہی، باطنی زندگی بھی ماشا اللہ ،رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے عین مطابق تھی۔ سنت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف خود ہی سختی سے کاربند تھے بلکہ شاگردوں اور مریدوں کی بات تواور ہے، راہ چلنے والے بظاہر اجنبی اشخاص سے بھی اس کی پابندی کے متمنی رہتے تھے اور انہیں نصیحت بھی فرماتے تھے۔ الحمد للہ، اللہ رب العزت نے بھی ان کی باتوں اور نصیحتوں میں تاثیر رکھی تھی کہ لوگ متوجہ ہوجاتے تھے۔
مفتی عبد الغنی لازہری آج ہم میں موجود نہیں ہیں، سہارنپور اتر پردیس کے ایک ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ،اناللہ و ان الیہ راجعون ۔ ابھی ایک ہفتہ قبل پچھلے اتوار ۱۵؍ جنوری کو حضرت ؔ کی زیارت ہوئی تھی، صاحب فراش تھے ،احقر کافی دیر تک وہاں بیٹھا رہا کئی بار کھلی نگاہوں سے احقرکی طرف دیکھتے رہے اور کچھ فرماتے بھی رہے جو ہماری سمجھ سے باہر تھا، البتہ ان کے فرزند اتنا سمجھ سکے کہ فرما رہے ہیں کہ پانچ کلو چاول پکائو یہ(احقر) بھی شام کا کھانا کھاکر جائیں گے۔اس سے پہلے دس بیس روز قبل بھرپور ملاقات ہوئی تھی،مکمل ہوش و حواس میں تھے کمرے میں موجود دیگر سب لوگوں کو رفتہ رفتہ باہر بھیج دیا پھر اپنا خواب سنانے لگے اور اس کی تعبیر بھی،پھر پوچھنے لگے کہ تعبیر یہی ہوسکتی ہے نا؟احقر نے اثبات میں جواب دیا۔ جب دعائوں کے لئے کہنے لگے تو احقر نے رقت آمیز لہجے میں جواب دیا’’حضرت آپ تو ہمارے لئے عمر بھر دعائیں کرتے رہیں ،ہم آپ کے حق میں دعا کرکے کوئی منت تو نہیں رکھینگے۔‘‘ لگ بھگ ایک صدی تک ملکی افق بطورِ خاص کشمیری کے افق پر چھائے رہنے کے بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔اللہ رب العزت مرحوم کو مغفرت فر مائیں اور رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار اور شفاعت سے مشرف فرمائے آمین ثمہ آمین، جن کے دین حق کے لئے حضرت جی آخری سانس تک جہاد کرتے رہے اور لاتعداد طالب علموں کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے آراستہ کرتے رہے اور طالبان حق کو شریعت و طریقت کا درس دیتے رہے کہ لاتعداد لوگ حضرتؔ جی کی صحبت میں رہ کر اوج کمال تک پہنچے، حضرتؔ جی کو واقعی ان کے، ان نیک اور صالح اعمال کا صدقہ جاریہ قیامت کی صبح تک ملتا رہیگا ،انشااللہ ۔
رابطہ۔9419017246
[email protected]
آہ !مفتی عبدالغنی الازہری ،انور شاہ ؒثانی