آئو سکول چلیں ہم! فقیر گجری کا پرائمری اور مڈل سکول3 کمروں پر مشتمل

 محکمہ تعلیم خواب خرگوش میں،150 سے زائد طلاب کا مستقبل خطرے میں

راجا ارشاد احمد

سرینگر//محکمہ تعلیم کی جانب سے جہاں تعلیمی شعبے میں بہتری کے بڑے بڑے دعوے کئے جارہے ہیں وہیں دوسری جانب زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ضلع سرینگر کے ہارون سے ملحقہ فقیر گجری میں واقع پرائمری سکول اور مڈل سکول میں زیر تعلیم 150 سے زائد طلبا تین کمروں میں درس تدریس حاصل کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا مستقبل مخدوش ہوتا جارہا ہے کیونکہ بقول طلبا کے ایک ایک کمرے میں دو دو جماعتوں میں زیر تعلیم طلبا کو تعلیم دی جارہی ہے جس وجہ سے کسی بھی طلبا کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کو کیا پڑھایا جا رہا ہے اور کیا سمجھایا جارہا ۔

 

فقیر گجری میں سال 2008 میں حکومت نے مقامی شہری نورالدین لالہ جس کے پاس صرف 1 کنال 4 مرلہ ملکیتی اراضی موجود تھی حاصل کرکے وہاں پر پرائمری اور مڈل سکول قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔مقامی لوگوں کے مطابق نورالدین لالہ سے ملکیتیاراضی اس وعدے پر حاصل کی گئی تھی کہ گھر کے کسی فرد کو سرکاری ملازمت فراہم کی جائے گی تاہم 15 سال گزر گئے نہ ملازمت فراہم کی گئی اور نہ ہی اب تک اسے اراضی کا معاوضہ ہی فراہم جاسکا.۔ کمروں پر مشتمل عمارت میں پرائمری اور مڈل سکول میں زیر تعلیم 150 طلبا ہیں۔طلبا کے مطابق جب استاد ایک جماعت کو پڑھاتے ہیں تو دوسری جماعت کے طلبا چپ چاپ بیٹھے دیکھتے رہتے ہیں۔حالت اتنی خراب ہے کہ ٹھیکیدار کی جانب سے سیمنٹ وغیرہ کے لئے استعمال کیا جانے والا سٹور میں بھی ایک جماعت کے طلبا کو گردو غبار میں بٹھاکر پڑھایا جاتا ہے۔جماعتوں کے لئے کمروں کی کمی کے باعث سال 2021/2022 میں محکمہ تعلیم نے نئے سکول کی عمارت تعمیر کے لئے لاکھوں روپے لاگت سے دو منزلہ عمارت کی تعمیر شروع کردی جو رواں سال مارچ کے مہینے میں مکمل کی گئی تاہم ٹھیکیدار کو واجبات ادا نہ کرنے پر ٹھیکیدار نے عمارت کے کمروں میں واقع کھڑکیاں، دروازے لگائے بغیر ادھورا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے طلبا اور اساتذہ کو درس تدریس میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سرپنچ راج محمد نے بتایا کہ محکمہ تعلیم نے آج تک اس جانب توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے طلبا کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے ۔لوگوں نے ایل سے مداخلت کی اپیل کی ہے کہ مسئلہ پر کارروائی کرکے حل نکالا جائے تاکہ اس پسماندہ علاقہ کے طلبا کا مستقبل بھی روشن ہوسکے ۔