محمد شہاب الدین
جامع القرآن،کامل الحیاء والایمان،مظلوم مدینہ حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا تعلق خاندان قریش سے ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے : حضرت عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔ پانچویں پشت میں آپ کا نسب حضورؐ کے نسب سے جا ملتا ہے ۔
آپ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے،ابتدایے اسلام میں ہی مشرف باسلام ہو گئے تھے ۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی تبلیغ پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ آپ کے اسلام لانے پر آپ کے گھر والے سخت برہم ہوئے، حتی کہ آپ کے چچا نے آپ کو رسیوں سے باندھ کر سخت اذیت پہنچائی، تاکہ آپ اسلام سے منحرف ہو جائیں۔ لیکن آپ نے کہا ،کچھ بھی کر لو اسلام نہیں چھوڑوں گا۔ پھر آپ کے اس استقامت کو دیکھ کر آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ مشرکین مکہ کی چیرہ دستیوں سے پریشان ہو کر حضورؐ کے حکم پر دو مرتبہ آپ نے ہجرت فرمائی ۔ ایک بار حبشہ کی جانب اور دوسری بار مدینہ طیبہ کی جانب ۔ اس لیے آپ کو ’’ذوالہجرتین‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو شہزادیاں آپ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے تشریف لائیں ۔ پہلا نکاح حضرت رقیہ ؓ کے ساتھ ہوا تھا جو جنگ بدر کی فتح کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئیں ۔ پھر حضور اکرم ؐ نے حضرت ام کلثومؓ کا نکاح آپ سے کر دیا جو ۹؍ہجری میں اس دنیا سے تشریف لے گئیں ۔ یوں دو صاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں ۔اسی وجہ سے آپ کو ’’ذوالنورین‘‘ ( دو نور والے ) کہا جاتا ہے۔یہ صرف آپ کی خصوصیت و انفرادیت ہے کہ آپ کے نکاح میں کسی نبی کی دو شہزادیاں یکے بعد دیگرے تشریف لائیں، ورنہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک کسی بھی نبی کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے کسی بھی شخص کے نکاح میں نہ آئیں اور حضرت علی ؓ سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا ہے جو آپ حضرت عثمان غنیؓ سے فرما رہے تھے : اے عثمان! اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو یکے بعد دیگرے سب کا نکاح تم سے کر دیتا، یہاں تک کہ کوئی بھی باقی نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان غنی ؓ کو جس قدر دولت سے نوازہ تھا ،اسی قدر اپنی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ بھی عطا فرمایا تھا۔ آپ نے اپنے مال سے مسلمانوں کو خوب نفع پہنچایا۔ جہاد میں حضوراکرم ؐ کے ترغیب دلانے پر مال کا انبار لگا دیا۔ اتنا صدقات و خیرات کیا کہ قرآن پاک میں آیت کریمہ نازل ہوئی ۔لَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَآ أَنفَقُواْ مَنًّا وَلَآ أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(سورۃ البقرۃ)۔سید نعیم الدین مرادآبادیؒ نے اس آیت کریمہ کے تحت اپنی تفسیر خزائن العرفان میں لکھا کہ یہ آیت کریمہ حضرت عثمان غنی ؓو حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے حق میں نازل ہوئی۔حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ مع ساز و سامان پیش کیے اور حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے چار ہزار درہم صدقے کے حضور اکرم ؐکی بارگاہ اقدس میں بیش کیے۔
سخاوت کے کچھ واقعات: حضور اکرمؐ اور دیگر صحابۂ کرام ؓ جب مدینہ طیبہ ہجرت کر کے تشریف لے گیے تو وہاں صرف ایک ہی کنویں کا پانی میٹھا تھا، باقی کنویں کا پانی کھارا تھا۔ وہ کنواں جس کا پانی میٹھا تھا ،وہ ایک یہودی کا تھا۔ اس کنویں کو ’’بیر رومہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ سب اسی کا پانی پیتے تھے۔ یہودی اس پانی کو فروخت کرتا تھا جس پر کافی رقم لیتا تھا۔ جس سے مسلمانوں کو بہت پریشانی ہوتی تھی۔حضور اکرم ؐ کے کہنے پر حضرت عثمان غنیؓ نے اس کنویں کو بارہ ہزار درہم دے کر خرید لیا اور مسلمانوں پر وقف کر دیااور یہ قرار پایا کہ ایک دن مسلمان اس سے پانی بھریں گے اور دوسرے دن وہ یہودی جس کا کنواں تھا۔ مسلمان اپنی باری میں دو دن کا پانی بھر لیتے تھے اور یہودی کی باری میں کوئی نہیں جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر یہودی نے وہ حصہ بھی بیچ دیا، جس کو آٹھ ہزار درہم دے کر حضرت عثمان غنیؓ نے خرید لیا۔ اس کو اب ’’بیر حضرت عثمان غنی ؓ‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ آپ نے حضور اکرم ؐ کی دعوت فرمائی ۔ حضورؐ جب آپ کے گھر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ حضورؐ کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے حضورؐ کے قدم مبارک گن رہے تھے ۔ حضور اکرم ؐ نے مسکرا کر پوچھا : عثمان! کیا گن رہے ہو؟ تو آپ نے جواب دیا کہ آپ کے قدم مبارک گن رہا ہوں کہ میرے گھر چلتے ہوئے جتنے قدم ہوں گے، اتنے غلام آزاد کروں گا ۔ پھر آپ نے اتنے غلام آزاد فرمائے۔
جنگ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہے تھے کہ حضرت سیدنا عثمان غنیؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا ’’یارسول اللہؐ! ساز و سامان کے ساتھ ایک سو اونٹ میں دیتا ہوں‘‘۔ حضور اکرمؐنے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ! ساز و سامان کے ساتھ دو سو اونٹ دیتا ہوں‘‘۔ حضورؐ نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ نے پھر عرض کیا ’’یارسول اللہؐ! ساز و سامان کے ساتھ تین سو اونٹ دیتا ہوں‘‘۔ پھر ان تین سو اونٹوں کے علاوہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار دینار (ایک روایت کے مطابق آپ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور دس ہزار دینار اس جنگ میں خرچ کئے۔ (مواہب لدنیہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنیؓ کی یہ سخاوت دیکھی تو آپ کے پیش کردہ دیناروں میں اپنا دست مبارک ڈال کر فرمایا : _’’ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم مرتين‘‘ ’’عثمان کے اس نیک عمل کے بعد اب انھیں کوئی بات ضرر نہ پہنچائے گی‘‘۔ (مشکوۃ شریف)
عہد خلافت کے کارہائے نمایاں: (۱)آپ کے دور کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے کلام مجید کو جمع کروا دیا جو الگ الگ صحیفوں میں بکھرے پڑے تھے۔(۲)آپ کے دور میں فتوحات کا وہ سلسلہ جس کو فاروق اعظم ؓ نے جاری کیا تھا اس کا دائرہ مسلسل بڑھتا رہا۔(۳)آپ کے عہد خلافت میں طرابلس، طبرستان ، رے ، اسپین ، افریقہ اور قبرص وغیرہ فتح ہوا ۔(۴)اسلام میں بحری جنگ اوربحری فوجی انتظامات کی ابتدا خاص حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت سے ہوئی۔(۵)آج تمام مہذب حکومتوں میں عمال وحکام کی ایک مجلس شوریٰ ہوتی ہے، حضرت عثمان ذوالنورینؓ نے چودہ سو برس پہلے اس ضرورت کو محسوس کرکے عمال کی ایک مجلس شوریٰ ترتیب دی تھی۔ (۶)متعدد مساجد ، مہمان خانے ، سڑک ، پل اور چشمے وغیرہ بنوائے۔
شہادت: مصر کے بلوائیوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا، مسلسل ٤٠ دن تک محاصرہ جاری رکھا، پھر دوران محاصرہ کچھ لوگ دیوار کود کر آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور آپ کو شہید کر دیا، آپ کی بیوی حضرت نائلہؓ نے بچانے کے لیے اپنا ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کی طرف کیا تو حضرت نائلہ کی انگلیاں کٹ گئیں۔ آپ اس وقت قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے اور خون کے چند قطرات آیت مبارکہ ’’فسَیَکْفِیْکْھُمُ اللّٰهُ‘‘ پر پڑے۔ اس طرح ۱۸؍ ذی الحجہ ۳۵؍ھ بروز جمعہ عصر کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ آپ کی عمر اس وقت بیاسی برس کی تھی۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ آپ کی قبر انور پر رحمت و نور کی بارش فرمائے اور آپ کے فیضان سے ہمیں مالامال فرمائے۔آمین