۔ 38زخمی،لیتہ پورہ اونتی پورہ کی فور لین شاہراہ پر دن دہاڑے بارود سے بھری گاڑی کانوائے کیساتھ ٹکرائی گئی،کاکہ پورہ پلوامہ کا فدائی بھی جاں بحق
اونتی پورہ // سرینگر جموں فور لین شاہراہ پرلیتہ پورہ اونتی پورہ میں سی آر پی ایف کانوائے پر1990کے بعد وادی میں جنگجوئوں کی جانب سے سب سے بڑا خونین اور تباہ کن فدائین حملہ کیا گیا، جس کے دوران مقامی حملہ آور جنگجو نے بھاری مقدار میںبارود سے بھری ایک سکارپیو گاڑی فورسز کی 2 گاڑیوں کیساتھ ٹکرائی ، جس میں رات دیر گئے تک 42اہلکار ہلاک جبکہ36 دیگر شدید طور پر زخمی ہوئے، جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک تھی۔معلوم ہوا ہے کہ کانوائے کے حفاظتی سکارڈ کی گاڑی بھی دھماکہ کی زد میں آگئی جس میں سوار تین اہلکار بھی مارے گئے۔جس مقام پر یہ حملہ کیا گیا وہاں قریب ہی جموں و کشمیر پولیس لائنز اونتی پورہ،110بٹالین سی آر پی ایف ہیڈکوارٹر اور فوڈ کارپوریشن آف انڈیا گودام بھی ہے۔جیش محمد نے حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ گنڈ باغ کاکہ پورہ پلوامہ کے عادل احمد نامی جنگجو نے کیا، جو پولیس کے مطابق پچھلے سال جنگجوئوں کی صف میں شامل ہوا تھا۔حملہ کے بعد شاہراہ پر ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں درماندہ ہو کر رہ گئیں کیونکہ اونتی پولیس سٹیشن اور پانپور سے گاڑیاں روک دی گئیں۔ واقعہ کے بعد پورے علاقے کو گھیرے میں لیا گیا اور بڑے پیمانے پر تلاشیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
حملہ کیسے ہوا؟
حکام کے مطابق شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے جمعرات کو جموں میں سی آر پی ایف کے مختلف یونٹوں سے وابستہ قریب 2500اہلکار درماندہ ہوئے تھے،جنہیں جموں سے سرینگر کیلئے جمعرات کی صبح قریب ساڑھے 3بجے70گاڑیوں کے قافلے میں روانہ کیا گیا۔مذکورہ کانوائے کو سورج غروب ہونے سے قبل ہی سرینگر پہنچنا تھا۔حکام کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر کانوائے میں صرف ایک ہزار اہلکار ہی ہوتے ہیں، لیکن شاہراہ چونکہ بند پڑی تھی اس لئے اس تعداد میں ایک ساتھ اہلکاروں کو جانے کی اجازت دی گئی۔جب کانوائے میں شامل گاڑیاں شاہراہ پر سہ پہر 3بجکر20منٹ پر لیتہ پورہ اونتی پورہ میں فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے گودام کے نزدیک 110بٹالین سی آر پی ایف ہیڈکوارٹر کے بالکل قریب کرالہ موڈ سے جارہی تھیں، تو اچانک دوگاڑیاں خود کش حملے کی زد میں آگئیں اور خوفناک دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں ایک گاڑی کے پرخچے اڑ گئے، لاشیں دور دور تک بکھر گئیں، اور ایک گاڑی میں آگ نمودار ہوئی۔قریب ایک سو میٹر تک گاڑیوں کے پرزے بکھر گئے اور لاشوں کے اعضاء پڑے تھے۔جس گاڑی کے پر خچے اڑ گئے اسکا نمبر JK01Q/6948 تھا اور اس میں 39اہلکار سوار تھے۔بتایا جاتا ہے کہ اس میں 76بٹالین سی آر پی ایف کے اہلکار سوار تھے۔
خود کش حملہ تھا؟
پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور معلوم ہوا تھا کہ کار بم دھماکہ ہوا تھا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ خود کش حملہ تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ غالباً خود کش حملہ آور نے مخالف سمت سے چل کر فورسز کی دو گاڑیوں کے بیچ میں سکارپیو گاڑی دھماکہ سے اڑا دی جس کے نتیجے میں ایک فورسز گاڑی کے پر خچے اڑ گئے جبکہ ایک کو شدید نقصان ہوا۔پولیس کا کہنا ہے کہ جس سکارپیو گاڑی میں خود کش جنگجو سوار تھا وہ مکمل طور پر راکھ ہوگئی جبکہ فورسز کی گاڑی میں آگ لگ گئی۔پولیس نے کہا ہے کہ جس وقت خوفناک دھماکہ ہوا اسکے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں، اور وہ اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ جنگجوئوں نے کہیں گاڑیوں پر فائرنگ تو نہیں کی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ جس شدت کیساتھ دھماکہ کیا گیا اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ قریب ساڑھے تین کوئنٹل بارود گاڑی میں بھرا گیا تھا۔
حملہ کے بعد
جب لیتہ پورہ میں لرزہ خیز خودکش حملہ ہوا، اسکے دھماکہ کی آواز کئی کلو میٹر تک سنی گئی۔ترال، پلوامہ، پانپور اور حتیٰ کہ پانتہ چوک اور نوگام تک بھی دھماکہ کی آواز سنی گئی۔دھماکہ کے فوراً بعد فورسز گاڑیاں رک گئیں، جبکہ پاس کے کیمپ میں موجود اہلکار بھی باہر آئے اور شاہراہ کی حفاظت پر مامور سیکورٹی اہلکار بھی یہاں پہنچ گئے۔جائے وقوع پر ہیبت ناک مناظر دیکھنے میں آرہے تھے۔ایک گاڑی مکمل طور تباہ ہوکر اسکے ٹکڑے دور دور تک بکھر گئے تھے جبکہ دوسری گاڑی کو بھی شدید نقصان ہوا تھا اور وہ آدھی کے قریب تباہ ہوچکی تھی۔دور ایک جگہ پر غالباً ایک گاڑی میں آگ لگی ہوئی تھی اور اس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ایک سو میٹر سے زیادہ کے احاطے میں شاہراہ کے دونوں طرف چیزیں بکھری ہوئی تھیں ، جن میں فورسز اہلکاروں کی لاشیں بھی تھیں۔فوری طور پر فورسز اور پولیس اہلکار یہاں پہنچ گئے اور انہوں نے سبھی زخمیوں کو سیدھے بادامی باغ
پہنچایا جہاں رات دیر گئے تک ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔اس کے بعد شاہراہ پر گھنٹوں تک دونوں طرف سے ٹریفک کی نقل و حرکت روک دی گئی اور سرینگر سے اننت ناگ اور اننت ناگ سے سرینگر آنے والی گاڑیوں کو احتیاطی طور پر روک دیا گیا۔بعد میں اونتی پورہ سے سرینگر جانے والی گاڑیوں کو پلوامہ کی طرف چھوڑ دیا گیا۔شاہراہ پر کئی کلو میٹر تک درماندہ مسافرو و پرائیویٹ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں جو رات دیر گئے تک وہیں کھڑی رہیں۔اس دوران جائے وقوع کے بلمقابل خشک میوہ اور زعفران فروخت کرنے والے درجنوں دکاندار اپنے دکانوں کے شٹر گرائے اور فرار ہوئے۔
فدائین کون تھا؟
خود کش حملہ آور کی شناخت عادل احمد ڈار ولد غلام حسن ڈار عرف وقاص کمانڈو ساکن گنڈی باغ کاکہ پورہ پلوامہ کے بطور ہوئی ہے۔جیش محمد نے حملے کی ذمہ داری لینے کے دوران کہا کہ یہ حملہ عادل احمد نے انجام دیا جو کہ گنڈی باغ کاکہ پورہ پلوامہ کا رہنے والا ہے۔اسکے بعد عادل کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر لائی گئی جس کے آغاز میں ہی وہ کہتا ہے’’ یہ ویڈیو آپ تک پہنچنے تک وہ جنت میں پہنچ چکا ہوگا‘‘۔ویڈیو میں وہ کہتا ہے کہ ایک سال قبل وہ جیش محمد کے فدائین دستے میں شامل ہوگیا تھا اور وہ آج کے دن کا ہی انتظار کررہا تھا۔عادل احمد کے بارے میں کشمیر عظمیٰ کو معلوم ہوا ہے کہ اس نے بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور اسکے بعد وہ گھر میں ہی رہتا تھا۔لیکن جب نوید جٹ 2فروری 2018کو سرینگر سینٹرل جیل سے صدر اسپتال لیجانے کے دوران فرار ہوا تو اسکے بعد ہی عادل بھی لاپتہ ہوا۔لیکن باضابطہ طور پر اسکی بندوق کیساتھ تصویر 6مارچ 2018کو منظر عام پر آئی تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نوید جٹ کو فرار کرانے میں جو 3نوجوان ملوث تھے، اور جو بعد میں جنگجوئوں کی صف میں شامل ہوئے، ان میں عادل بھی ایک تھا۔عادل کے علاوہ ہلال اور سمیر احمد نامی مزید 2 نوجوان بھی نوید جٹ کو فرار کرانے میں ملوث بتائے جاتے تھے۔ ان میں سے ہلال احمد رتنی پورہ پلوامہ میں دو روز قبل جھڑپ میں جاں بحق ہوگیا۔
کاکہ پورہ کی صورتحال
جونہی لیتہ پورہ فدائین حملہ میں عادل احمد نامی جنگجو کی ہلاکت کی خبر پھیل گئی تو گنڈ باغ میں مختلف علاقوں سے لوگ پہنچنا شروع ہوئے۔اسکے ساتھ ہی سانبورہ، کاکہ پورہ، رتنی پورہ اور پاہو میں ہڑتال ہوئی اور نوجوانوں کی کافی تعداد عادل کے آبائی گائوں میں جمع ہونے لگی۔اس دوران کاکہ پورہ میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے، جہاں پولیس کیساتھ مظاہرین کا آمنا سامنا بھی ہوا اور پتھرائو کرنے والے مظاہرین پر شلنگ کی گئی۔لیکن رات دیر گئے تک جنگجو کی لاش کے حوالے سے کوئی مصدقہ طور پر نہیں بتایا جسکا کہ لاش کا کوئی حصہ باقی رہ گیا ہے جسے بر آمد کیا گیا ہے یا نہیں۔