شبیر ابن یوسف
ایک سال سے بھی کم عرصے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دو بار کہا کہ مرکز حریت، جمعیت یا پاکستان کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا اور اس کے بجائے جموں و کشمیر کے نوجوانوں سے بات کرے گا۔حال ہی میں لوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک پربحث کے دوران بات کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر میں تبدیلی لانے کیلئے ایک “دور رس فیصلہ” لیا ہے۔امیت شاہ نے آج کہا کہ مرکز “حریت، جمعیت یا پاکستان” کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا اور اس کے بجائے جموں و کشمیر کے نوجوانوں سے بات کرے گا۔شاہ نے کہا’’دفعہ 370 جواہر لال نہرو حکومت کی ایک غلطی تھی۔ اسے اس پارلیمنٹ نے 5 اور 6 اگست 2019 کو منسوخ کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر سے دو جھنڈے اور دو آئین چلے گئے اور پی ایم مودی نے ملک میں اس کے مکمل انضمام کو یقینی بنایا‘‘ ۔وزیر داخلہ کا مزید کہناتھا’’ان سے(کانگریس سے ) متاثرہ ایک این جی اونے حال ہی میں ایک میٹنگ کی اور ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ مرکز کو حریت، جمعیت اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ ہم حریت، جمعیت یا پاکستان سے بات نہیں کریں گے۔اگر ہم بات چیت کریں گے تو وادی کے نوجوانوںسے کریں گے کیونکہ وہ ہمارے اپنے ہیں‘‘۔
کشمیر میں اٹھائے گئے اقدامات پرامت شاہ نے کہا کہ مرکز نے کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور جماعت اسلامی پر پابندیاں عائد کی ہیں، اور دہشت گردوں کے ہمدردوں کو نوکریوں سے ہٹا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب دہشت گردوں کے جنازے نہیں نکالے جاتے اور وہیں دفن ہوتے ہیں جہاں وہ مارے جاتے ہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ کشمیر میں لکھن پور ٹول ٹیکس، جہاں پارٹی کے نظریہ ساز شیاما پرساد مکھرجی کو 1953 میں گرفتار کیا گیا تھا اور جو “کروڑوں بی جے پی کارکنوں کے دلوں میں کانٹا تھا”کو ختم کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں ایک زبردست ریلی کے دوران وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے بلکہ اس کے بجائے کشمیر کے لوگوں سے بات کرنا چاہتے ہیں کہ وہ یہ جان سکیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
شاہ، جو گزشتہ اکتوبر میں جموں و کشمیر کے تین روزہ دورے پر تھے، نے کہا تھا کہ انھیں اکثر پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت کرنے کا “مشورہ” دیا جاتا ہے جس خیال کو وہ یکسر مسترد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا تھا’’میں پاکستان سے بات نہیں کرنا چاہتا اور نہ کروں گا۔ اس کے بجائے ہم کشمیر کے نوجوانوں، اپنے گجر، بکروال اور پہاڑی بھائیوں سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کشمیر کے لوگوں سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پاکستان نہیں‘‘ ۔
یہاں کے نوجوان سمجھدار ہو گئے ہیں۔ کشمیر کے نوجوانوں کے ساتھ جو کھیل بہت کم لوگوں نے کھیلا تھا وہ رک گیا ہے۔ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں دہشت گردی اور سڑکوں پر احتجاج سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آج کا نوجوان اپنی پڑھائی پر توجہ دے رہا ہے۔ وہ تمام احتجاج اور پتھراؤ کے واقعات جو ہم روز دیکھتے تھے اب نہیں ہوتے۔
پتھر بازی، جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے، کشمیری نوجوانوں کے ایک حصے کی طرف سے بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے تعینات سیکورٹی فورسز پرپتھر پھینک کر حملہ کرنا ہے۔اس طرح کے جان لیوا حملے سری نگر کی سڑکوں پر احتجاج کا معمول بن گئے تھے۔2016 میں پتھراؤ کے 2,653 واقعات ہوئے۔ 2017 میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پتھراؤ کرنے والوں کو ادائیگی کے لیے پاکستان نے وادی کشمیر میں پیسہ پہنچایا۔ جوانوں کو فوج اور دیگر دفاعی دستوں پر پتھراؤ کرنے پر معاوضہ دیا گیا۔پتھراؤ نے سیکورٹی فورسز اور وادی کشمیر کے رہائشیوں میں فرق نہیں کیا۔ اکتوبر 2018 میں، اننت ناگ میں پتھر بازی کے دوران سر پر چوٹ لگنے سے ایک فوجی اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔ سینکڑوں جوان اور شہری زخمی ہوئے ۔ تاہم اب ترجیحات بدل رہی ہیں ۔گزشتہ سال 5 اگست کے بعد کشمیر نے ایک نئی راہ پر گامزن ہونا شروع کر دیا ہے۔ کشمیر جو دہشت گردی سے متاثر تھا، اب مستقبل قریب میں ایک ماڈل بن کر ابھرے گا۔ ماضی میں، ہڑتالوں کو منظم کرنے کے لئے مقامی لوگوں میں احتجاجی کیلنڈر تقسیم کیے جاتے تھے۔ اب وہ جانتے ہیں کہ نظام میں شفافیت اور احتساب ہے۔ یہ خطے میں بڑی مثبت تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔
دفعہ370کی منسوخی کے تقریباً چار سال بعد کشمیر کی صورتحال پہلے کے ادوار کے بالکل برعکس ہے۔ دہشت گردانہ حملوں میں کمی کے ساتھ، ٹارگٹ کلنگ کے بے ترتیب الگ تھلگ واقعات کے باوجود، کشمیر میں سیکورٹی کے حالات میں واضح بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گرد صفوں میں بھرتیوں میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔
نوجوانوں کو لگتا ہے کہ مذہب اور پیغمبرانہ اقوال کا استحصال کرکے انہیں کئی بار بیوقوف بنایا گیا ہے۔ اس کی آڑ میںانہیںگھناؤنے لین دین اور منحوس طرز عمل جیسے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث کیاگیاتھا تاکہ نہ صرف وادی میں دہشت گردی اور تشدد کو فروغ دینے کیلئے پیسہ مہیا کیاجاسکے بلکہ ہم آہنگ کشمیری ثقافت کی باقیات کو ختم بھی کیاجائے
زمینی سطح پر اس بدلی ہوئی حقیقت نے پاکستان کے بارے میں مقامی نوجوانوں کے ابھرتے ہوئے تاثرات میں کافی حصہ ڈالا ہے۔ اس لئے زمینی سطح پر نمایاں بہتری کے ساتھ کشمیر کے نوجوانوں کے ساتھ کھلی بات چیت کیلئے زمین ہموار ہے۔
(مضمون نگار گریٹر کشمیر کے سینئر سٹاف ممبر ہیں)
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیرعظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)