شوکت حمید شاہ
سرینگر سے پلوامہ جانے والی سڑک کے23کلومیٹر فاصلے پر بائیں جانب دریائے جہلم کے کنارے گنجان آباد گائوں ’کاکہ پورہ‘ قدیم زمانے سے مشہور رہا ہے ۔جہلم کے کنارے بسا ہوا یہ گائوں ابتدائی سرکاری ریکارڈ میں اس نام کے ساتھ گر کر پورہ لکھتا جاتا تھا۔اس جگہ نالہ رومشی آکر دریا ے جہلم کے ساتھ ملتا ہے جہاں کنارے پر مندر کی بھی مذہبی اہمیت رہی ہے۔سر آریل سٹالن انگریزی محقق کے مطابق کاکہ پورہ کا نام اُتل پورہ تھا جسے نویں صدی میں آباد کیا گیا ۔ایک روایت ہے کہ ادھر کاک خاندان رہایش پذیر تھا جس وجہ سے اس کو کاکہ پورہ (کاکا پورہ ) نام پڑ گیا ۔اس خاندان سے متعلق تاریخ میں آیا ہے کہ یہ بارہویں صدی میں کشمیر کا ایک بارسوخ خاندان رہا ہے جس کے ارکان کئی حکمرانوں کے دور میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں ۔ایک روایت ہے کہ ادھر آس پاس خون ریز لڑائیاں لڑی گئی ہیں اور اسی وجہ سے کشمیری زبان میں آج تک ’’نامہ کاک پورہ تھُاون ‘‘ (کاک پورہ کا نام یاد رکھو)کہا جاتا ہے۔
کاکہ پورہ کے آباد ہونے سے متعلق ایک نظریہ کے مطابق ملک حید رچاڈوہ ،نرائن کول اور حسن شاہ کھویہامی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ سے 5سو برس پہلے یہ بستی آباد ہوئی۔ایک روایت ہے کہ گائوں کو راجہ گلیندر نے بسایا ،جبکہ ایک اور روایت ہے کہ نویں صدی عیسوی میں راجہ چیٹ جیا پیڈ کے وزیر اور راجہ اونتی ورمن کے دادا اُتپل سوامن نے اس کا نام رکھا ۔مندر کے کھنڈرات برابر موجود ہیں ۔ایک اور روایت کے مطابق کھنڈرات کو پانڈئوں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔کشمیری عرف عام میں ان کو ’’پانڈو لرء ‘‘ یعنی پانڈئوں کے مکانات کہتے ہیں ۔پانڈئوں اور کورئوں کی لڑائی ہزاروں برس قبل مشہور ہوئی آئی ہے ۔عظیم بادشاہ بڈشاہ (زین العابدین) کے دور حکومت میں کاکہ پورہ نہر تعمیر کی گئی جس سے گرد و نواح دیہات کو آبپاشی سہولت میسرہوئی ۔1960کے بعد مارول لفٹ اری گیشن پروجیکٹ کو اسی مقاصد کیلئے تعمیر کیا گیا ۔
تواریخی اور سیاسی اعتبار سے کاکہ پورہ کی قدیم وقت سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے ۔اس کے مشرق کی طرف اونتی پورہ لیتہ پورہ ،شمال جانب گالندر پانپور نزدیک جگہیں ہیں ۔مغل دور تک اس علاقہ کی خاص پیداوارافیون تھی ۔اورنگ زیب نے اس پرپابندی لگائی ۔شوپیان سے لیکر پلوامہ کے آس پاس تک کی پیدوار شالی بڑی کشتیوں (ڈونگوں ) کے ذریعے سرینگر بھیجی جاتی تھی ۔جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کی ضلعی سڑک قصبہ سے گزرتی ہے جو اسے ضلع صدر مقام پلوامہ سے ملاتی ہے۔
50سال پہلے کاکہ پورہ کو بلاک کا درجہ دیا گیا ۔چار پانچ سڑکوں کا سنگم کاکہ پورہ اپنی تواریخی اہمیت اور موجوادہ سیاسی وسماجی حیثیت سے جمائے ہوئے ہے ۔ مشرق طرف سڑک بانڈر پورہ ،پُود گام اونتی پورہ ،شمال جانب گالندر پانپور ،شمال مغرب جانب مارول نیامن اور آگے چاڈورہ سرینگر ،مغرب جانب نیوہ پکھر پورہ اورجنوب کی جانب پلوامہ شوپیان جاتی ہے ۔یہاں ریلوے سٹیشن بھی ہے ۔اس طرح آسانی سے سرینگر، بڈگام ،سوپور ،بارہمولہ اور اننت ناگ ،قاضی گنڈ ،بانہال کم وقت میں سفر ہوسکتا ہے۔کاکہ پورہ 2013میں تحصیل صدر مقام بنا ہے ۔بانڈر پورہ ، گنڈی پورہ، ہاکری پورہ،کھدرموہ، کسری گام، لیلہار، مارول، میر باغ، میرپورہ،ناروا، نہامہ، پاہو، پنگلینہ،، رتنی پورہ،سامبورہ اور اوکھ سمیت42دیہات پر مشتمل تحصیل کاکہ پورہ میں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں جبکہ علاقے میں کئی کارخانے اور کاروباری ادارے بھی قایم ہیں ۔تحصیل ہیڈ کوارٹر کاکہ پورہ میں تحصیل آفس ،بلاک آفس،پی ایچ سی،زونل ایجوکیشن آفس،ریلوے سٹیشن ،پولیس سٹیشن ،محکمہ جنگلات ،زراعت ،باغبانی اور پشووپالن سمیت متعدد سرکاری دفاتر بھی قائم ہیں جبکہ گورئمنٹ ہائر سکینڈری سکول کے علاوہ گورئمنٹ گرلز ہائی سکول ،مڈل سکول اور کئی پرائمری سکول بھی قصبہ کاکہ پورہ میں ہیں ۔اس کے علاوہ جموں و کشمیر وقف بورڈ کے تحت سکینڈری درجہ کا غوثیہ سکینڈری سکول،نورانی ایجوکیشنل انسٹی چیوٹ اور کہکشان پبلک سکول سمیت کئی نجی تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں ۔ رواں سال ہی سرکار نے کاکہ پورہ کو دیہی ماڈل ولیج کا درجہ بھی دیا اور اس حوالے سے کئی ایک پروجیکٹوں پر کام بھی شروع ہوچکا ہے۔
کاکہ پورہ میں زیلدار پنڈت خاندان کا رعب اور اثر و رسوخ آج بھی قائم ہے ۔مقامی سماجی کارکن غلام حسن پنڈت کہتے ہیں’’ پنڈت خاندان علاقہ میں ایک کاروباری گھرانہ تھا جن کے بڑے بڑے سیاست دانوں کے ساتھ مراسم تھے اور یہی وجہ ہے کہ’خواجہ حویلی ‘ جو آج بھی موجودہے ،میں1947میں علی محمد جناح آئے جبکہ شیخ محمد عبداللہ ،بخشی غلام محمد ،غلام احمد صادق اور دیگر کئی سیاسی لیڈر بھی یہاں آتے رہتے تھے ‘‘۔وہ کہتے ہیں ’’مرحوم غلام محی الدین پنڈت نہ صرف ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے بلکہ سماجی خدمات میں بھی ان کا کافی رول رہا ہے ‘‘۔ ایک صوفی بزرگ جسے لوگ پیر بابا صاحب کے نام سے پکارتے تھے ،کاکہ پورہ میں مدفون ہیں۔قصبہ کے مفصلات میں رتنی پورہ گائوں آباد ہے جو ماضی سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہ چکا ہے ۔ اس گائوں میں کئی بڑے مفکروں ،عالموں ،تعلیمی ماہرین،سیاست دانوں ،مالجین ،براڈ کاسٹروں اور صحافیوں نے جنم لیا ہے ۔گائوں میں انداربی خاندان کا کافی اثر رسوخ ہے اور اس خاندان سے تعلق رکھنے والے متعدد افرادجموں و کشمیر، ملک اور بیرون ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
قصبہ میں جہلم کے کنارے ایک شیو مندر ہے ۔ کلہن نے راج ترنگنی میں لکھا ہے کہ مندر 10ویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مندر کے احاطے میں کچھ کھنڈرات اور ایک خاتون دیوتا کا مجسمہ بھی ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کے ذریعہ مندر کو قومی اہمیت کی یادگار کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔آستان محلہ میں حضرت’مہدہ بابا ریشی ؒکا آستان ہے اور اسکے ساتھ ہی آستان جامع مسجد بھی ہے ۔مارچ کے مہینے میں یہاں سالانہ عرس منایا جاتا ہے اور قریبی دیہات سے آئے ہوئے عقیدت مند یہاں آتے ہیں ۔مین مارکیٹ میں ایک عالی شان جامع مسجد بھی ہے اور اس کے ساتھ ایک وسیع وعریض میدان بھی ہے جہاں پر عید گاہ بھی ہے۔کاکہ پورہ ماضی سے ہی تجارتی مرکز رہا ہے۔بڑے بازار کی وجہ سے گرد و نواح کے دیہات کا رش رہتا ہے ۔کاکہ پورہ کے زیلدار پنڈت خاندان کا رعب اور اثر و رسوخ آج سے50سال پہلے تک جانا اور مانا جا تا تھا۔کاکہ پورہ کے مشرق اور مغرب دھان کے لہلہاتے کھیت موسم گرما سے موسم خزان تک جوبن پر رہتے ہیں ۔پلانٹیشن نرسری کے علاوہ سبزیاں اُگائی جاتی ہیں ۔کچھ لوگوں کی معیشت مچھلی پالن ہے۔کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی طور لوگ کافی حساس ہیں ۔قدیم زمانے کی تایخ پر لوگ فخر کرتے ہیں ۔
(مضمون نگارروزنامہ کشمیر عظمیٰ کے سینئر ایڈیٹر اور
محفل بہار ادب شارہوہ پلوامہ کے اعزازی رکن ہیں)
ای میل۔[email protected]