ڈاکٹر عریف جامعی
رب تعالیٰ نے وسائل و ذخائر آب کو ہر طرح سے زندگی کی علامت بنادیا ہے۔ ندی نالے ہوں یا دریا و بحر یا پھر جھرنے اور چشمے، ہر آبی وسیلے سے زندگی پھوٹتی ہے اور حیات نو کا سامان ہوتا ہے۔ اب جہاں تک زندگی کا سوال ہے، تو زندگی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی جگہ (ظاہر ہے یہاں جگہ سے پانی کا کوئی ذخیرہ مراد ہے!) کوئی شئے جیے اور پھلے پھولے۔ اگرچہ زندگی میں یہ معنی بدرجہ ٔاتم موجود ہیں، لیکن زندگی سے یہ بھی مراد ہے کہ حالات زندگی خوب سے خوب تر ہوجائیں اور زندگی خوشنما ہو اور زندگی میں رعنائی اور جمال پیدا ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ حکماء (فلاسفہ) نے کون و مکان کے وجود میں آنے کو ہی جمال کی جستجو میں سرگردانی قرار دیا ہے۔ چونکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ پانی سے نہ صرف عام طرح کی صفائی اور ستھرائی قائم و دائم رہتی ہے، بلکہ اس سے بلند تر سطح پر حسن و جمال مجرد خیال کے بجائے ایک محسوس حقیقت بن جاتا ہے، اس لئے پانی سے زندگی میں تحریک موجود رہتی ہے۔ اس لئے یہ بات کسی بھی صورت میں عجیب معلوم نہیں ہونی چاہئے کہ انسان کی تسخیر کائنات (ستاروں، سیاروں، سیارچوں، وغیرہ کی کھوج) کے مقاصد کی فہرست میں پانی کی تلاش کو اولیت حاصل رہتی ہے۔
تاریخی طور پر کشمیر کے تمام آبی ذخائر میں جھیل ڈل کو ایک مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں کی معتدل آب و ہوا، فطری حسن اور فرحت بخش فضاؤں کو اگرچہ یہاں کے تمام آبی ذخیروں نے ایک خاص رنگ دیا ہے، تاہم جھیل ڈل نے کشمیر کو پرکشش بنانے اور ایک خاص پہچان عطا کرنے میں ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ اگر سرینگر کو اپنی مرکزیت کی وجہ سے کشمیر کا دل کہا جائے، تو جھیل ڈل اس دل کا بھی دل کہلائے گا۔ ایسا اس لئے ہے کہ جھیل ڈل میں اور اس کے کناروں پر جاری رہنے والی معاشی سرگرمیاں، جن میں سیاحت کو بے شک ایک اہم مقام حاصل ہے، سرینگر کو اسی طرح سرگرم اور رواں دواں رکھتی ہیں جس طرح جسم کو دل متحرک رکھتا ہے۔ اس جھیل نے کشمیر کے جمالیاتی خدوخال کو تشکیل دینے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
زبرون پہاڑیوں کے بیچ سے سنہری طشت کی طرح ابھرنے والا آفتاب علی الصبح پوری جھیل کو ایک سنہرے فرش میں تبدیل کرتا ہے، جس پر “ناؤ خانے” (ہاؤس بوٹ) ان دلہنوں کی طرح نظر آتے ہیں جو سج دھج کے دولہے کی منتظر ہوتی ہیں۔ سورج کی یہ سنہری کرنیں نہ صرف “سونہ لنک” پر سنہرے رنگ کی ایک پرت چڑھاتی ہیں، بلکہ یہ “چار چناری” کی خوبصورتی پر چار چاند لگاکر اس کو اور پرکشش بناتی ہیں۔ یہ مناظر ڈوبتا سورج اس وقت دہراتا ہے جب شفق کی زردی پوری جھیل پر اپنی دبیز چادر چڑھا دیتا ہے۔ اس کے بعد جب چاند اپنی چاندنی بکھیرتا ہے تو جھیل ڈل چاندی کی ایک تختی کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا ماحول فطرت کا ایک ساز چھیڑ کر پوری جھیل میں ایک محفل سماع کا اہتمام کرتا ہے، جس سے “روپہ لنک” جیسے وجد میں آجاتی ہے۔
تاہم “ڈل کنارے” اس جھیل کے مشاہدے میں مصروف شخص ڈل، اس کے کناروں پر موجود تاریخی عجائبات اور اس پر سایہ فگن پہاڑیوں کے دامن پر بنائے گئے باغیچوں کو اگر ایک اکائی کے طور پر دیکھ سکے، تو وہ کشمیر کے ماضی اور حال کی وحدت کو محسوس کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ماضی اور حال کا یہ مشترکہ خاکہ ہی مستقبل کے بارے میں ہمیں کوئی رائے قائم کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ہمارا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ ماضی میں موجود قابل فخر اشیاء اور روایات کو ضروری تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے، جبکہ غیر ضروری اشیاء اور روایات کو قصۂ پارینہ سمجھ کر ترک کرنا سیکھ لیا جائے۔ اگر ایسا نا کیا جائے تو انفرادی طور پر انسان اور مجموعی طور پر قوم ماضی کی اسیر بن کر مستقبل کے لوازمات سے جی چرا سکتی ہے، جس سے قوم کے بحیثیت قوم آگے بڑھنے کے امکانات ختم ہوسکتے ہیں۔ تاہم زمانۂ حال کی تحریک اور مستعدی ماضی اور مستقبل کو ملانے کے لئے نہایت ضرووی ہے، کیونکہ حال ہی مسلسل اور متواتر ماضی کی شکل اختیار کرکے ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ بن جاتا ہے۔
ڈل کے مغربی کنارے سے شروع کریں تو ہماری توجہ درگاہ حضرت بل کی طرف جاتی ہے۔ یہاں رسالت مآب ؐ کا موئے مقدس محفوظ ہے، جس کی زیارت اہلیان کشمیر خاص مواقع، جیسے ربیع الاول وغیرہ، پر کرتے ہیں۔ درگاہ حضرت بل نے کشمیر کے معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی خدوخال طے کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اختلافات کے باوجود کشمیری مسلمانوں کی اس درگاہ کے ساتھ دلچسپی اور وابستگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ انفرادی طور پر بھی جمالیاتی لحاظ سے ایک حساس اور صوفیانہ مزاج کا حامل انسان ڈل کے پانی سے منعکس ہونے والی درگاہ کے گنبد کی تصویر اور چاندنی راتوں میں درگاہ اور ڈل کے درمیان پیدا ہونے والی نورانی مناسبت سے ایک خاص قسم کا حظ اٹھاتا ہے۔
درگاہ حضرت بل کے ساتھ ہی دانش گاہ کشمیر منسلک ہے، جس نے کشمیر کی جدید تاریخ کی علمی، معاشرتی اور ثقافتی تشکیل میں ایک اہم کردار نبھایا ہے۔ اس دانش گاہ کی ڈل کے ساتھ ایک خاص مناسبت یہ ہے کہ ڈل سے آنے والی تازہ ہوائیں اس کے ماحول کو تر و تازہ رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ماحول میں پیدا ہونے والی اس تازگی سے طالبین علم کے دل و دماغ پر ایک فرحت بخش اثر پڑتا ہے۔ اس نسبت کا ایک غیر محسوس اثر یہ ہوسکتا ہے کہ طالب علم کے ذہن میں ڈل جیسی وسعت اور اس کے پانیوں جیسا سکون و اطمینان پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے اس دانش گاہ کے فارغین کے دل وسیع، دماغ روشن اور اذہان فطین ہونے کی ہر کوئی توقع رکھتا ہے۔ ایک طرف ڈل سے آنے والی باد صبا نسیم باغ کے چناروں کی ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ مل کر دانش گاہ کی فضاؤں کو معطر کرتی ہے تو دوسری طرف قطب خانہ ٔاقبال (علامہ اقبال لائبریری) کی بلند قامت عمارت ڈل کے پانیوں میں اپنا عکس ڈال کر کشمیر کے علمی اقبال کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
ڈل کے شمالی اور جنوبی سرے بالترتیب دو ایسی شخصیات کی طرف منسوب ہیں جنہوں نے بر صغیر کی تاریخ میں ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔تاہم شمالی سرے پر جس شخصیت (یعنی شیخ محمد عبداللہ) کا مدفن ہے، انہوں نے اپنی تمام تگ و دو اپنے “نیا کشمیر” بنانے کے تخیل میں صرف کی، جس کی گونج ایک یا دوسری طرح آج بھی سنائی دیتی ہے اور اس کے اثرات کشمیریوں پر بالخصوص جبکہ برصغیر کے لوگوں پر بالعموم مرتب ہوتے آئے ہیں۔ جنوبی سرا جس شخصیت (جواہر لال نہرو) کے نام کے ساتھ منسوب ہے، انہوں نے “نیا ہندوستان” ترتیب دینے میں آزاد ہند کے تمام راہنماؤں میں سب سے اہم کردار نبھایا۔ واضح رہے کہ تقسیم ہند کے اہم موڑ پر ڈل کے اسی حصے میں متحدہ ہند اور تقسیم ہند کے حامیوں کے درمیان مہینوں تک “استدلال کی کشمکش” جاری رہی تھی، جو اب بہرحال تاریخ کا ایک حصہ ہے!
ڈل کے مشرقی کنارے پر شمال سے جنوب کی طرف مشہور “مغل باغات” پھیلے ہوئے ہیں۔ ان باغات کے اندر ہم آج بھی مغلوں کا جمالیاتی ذوق ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ تاہم باغات بنانے کا یہ ذوق، ذرا سے فرق کے ساتھ، ہمیں مسلم حکمرانوں کے بنائے ہوئے اکثر باغوں میں نظر آتا ہے۔ اس ذوق کا راست تعلق قرآن مقدس میں موجود جنت کے تصور کے ساتھ منسلک ہے، جہاں باغوں میں سایہ دار درختوں کے ساتھ ساتھ باغوں کے بیچ میں بہتی نہروں کا بار بار ذکر ملتا ہے۔ اس لئے شالیمار باغ ہو یا نشاط باغ، یا پھر چشمہ شاہی، ان سبھی باغوں میں شجر ہائے سایہ دار میں چنار (کشمیر کا قومی درخت) کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، اور ہر باغ کے بیچ ایک نہر ضرور بہتی ہے۔ اندلس (اسپین) کے مسلم حکمرانوں نے بھی اسی انداز میں باغ لگا کر پورے اسپین کو ہی جنت (یعنی باغ) میں تبدیل کیا تھا۔ اسپین کے ان باغوں میں “جنت العریف” (جنرلائف) بھی ایک معروف و مشہور باغ رہا ہے، جس کے آثار آج تک موجود ہیں۔ تاہم مغل باغات میں “ہارون” کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہیں پر بودھ مت سے متعلق یادگاریں موجود ہیں۔ کچھ مورخین کے مطابق یہیں پر چوتھی بودھ مجلس (کونسل) منعقد ہوئی تھی۔
ان باغات میں سے ایک باغ یعنی چشمہ شاہی سے ذرا سے فاصلے پر “پری محل” پایا جاتا ہے، جو زبرون پہاڑی کے اوپر ڈل کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ سیڑھی نما یہ باغ دارا شکوہ نے پری بیگم کے نام پر بنایا تھا۔ یہاں پر اس بات کا واضح رہنا بہت ضروری ہے کہ دارا شکوہ صوفیانہ مزاج کے ساتھ ساتھ اعلیٰ جمالیاتی ذوق بھی رکھتے تھے۔ اس باغ میں ہمیں دارا شکوہ کی ان دونوں جہتوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ اس باغ میں بیٹھ کر ہمیں فطرت سے کچھ اس طرح کی قربت محسوس ہوتی ہے کہ نہ صرف ایک متصوف بلکہ عام انسان پر بھی ایک قسم کا وجد طاری ہوتا ہے۔ یہاں سے سیاح جھیل ڈل کا بھرپور نظارہ کرسکتا ہے اور شہر (سرینگر) پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال سکتا ہے، جس سے سرینگر کی اہمیت کی حامل اکثر عمارات اور مشہور مقامات کی تصور کی آنکھ سے عکس بندی کی جاسکتی ہے۔ یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ دارا شکوہ نے اپنے صوفیانہ ذوق کے مطابق “مجمع البحرین” لکھ کر مسلمانوں کی صوفیانہ روایت اور ویدوں میں موجود دانش کو آپس میں ملانے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ ظاہر ہے ایسی ہی طبیعت کی حامل شخصیت اس قسم کے باغ لگاسکتی تھی، جہاں عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کو بھی داد تحسین مل سکے!
اس طرح ڈل کنارے ایک حساس طبیعت انسان کے لئے سیاسی، تاریخی، جمالیاتی، اخلاقی اور صوفیانہ اسباق پر مشتمل ایک کھلی کتاب موجود ہے۔ اس کتاب کا قاری رموز عشق، چاہے وہ مجازی ہوں یا حقیقی، بھی سیکھ سکتا ہے، جس سے انسان کا ذوق، وجدان، تفکر اور ادراک ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ بقول علامہ:
ہے ذوق تجلّی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل! تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
(مضمون نگار محکمہ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک سٹیڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
ای میل۔ [email protected])
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)