فیضان بٹ
ڈاکٹر محمد امین میر کی یہ کتاب ایک بہت ہی محققانہ اور خوبصورت تصنیف ہے ۔دراصل علامہ اقبال نے اس وقت آنکھ کھولی جب مشرق اور مغرب کی کشمکشی کا دور تھا ۔ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط تھا۔یہ ایک طرح سے تہذیبی یلغار تھی۔اس تہذیبی یلغار نے نہ صرف عام لوگوں کو متاثر کیا بلکہ بیش تر علماء اور دانشور بھی اس سے متاثر ہوئے یہ وہی کشمکشی دورہے جس میں دیوبند اور علی گڈھ جیسی تحریکیں وجود میں آئی۔ جس کے نتیجے میں خواہ مشرق کی تعلیمی پالیسی ہو ،شعری و ادبی رجحانات ہوں یاسماجی و فکری نظریات ہوں،ہر میدان میں تبدیلیاںنمایاں نظر آنے لگی ۔ایسے میں علامہ اقبال نے ایک واضح پیغام یہ دیا ہے کہ :
مشرق سے ہو بیزار ،نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کااشارہ ہے کہ ہر شب کوسحر کر
دراصل یہ پوری کتاب اسی شعر کے تناظر میں پیش کی گئی ہے ،چاہے وہ مغرب کے مختلف سیاسی نظریات یعنی جمہوریت۔سوشلزم۔(مارکسزم) نیشنلزم پر اقبال کی تنقید ہو یا مغربی تصور تعلیم ،جس میں خاص طور سے اقبال کا تعلیم نسواں اور مغرب اہم موضوع ہے اس پر تنقید کی گئی ہو، اس کے علاوہ مصنف نے ان جملہ اسباب و عوامل کو بھی واضح کیا ہے جو مغرب پر اقبال کی تنقید کے سبب بن گئے۔جس میںخرد پرست مغرب اور مادیت پرست سائنس ،مغربی مفکرین اور مغربی تہذیب پر اقبال کی تنقید خاص توجہ طلب ہے ۔اس کتاب کے حوالے سے میرے ذہن میں یہ دو ذاتی سوالات بھی حل ہوگئے کہ علامہ اقبال کو شاعر مشرق کیوں کہا جاتاہے جبکہ غالب یا رابندرناتھ ٹیگور جیسے شعراء کا بہت بڑا مقام ہے، اس میں دوسرے شاعر نوبل انعام یافتہ بھی ہے جبکہ پہلے شاعر کا اعتراف شاعر مشرق علامہ نے اپنے کلام میں کئی جگہوں پر خود کیا ہے ،لیکن اس کے باوجود انہیںیا اس کے علاوہ مشرقی زبان کے بہت سے شعراء کو شاعر مشرق کا خطاب کیوںنہیں ملا ۔مصنف نے اس حوالے سے ایک اہم بحث کی ہے ۔مصنف کے نزدیک علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے بیشتر حصّے میں اپنے فلسفیانہ نقطۂ نظر میں مشرقی اور مغربی فکر کوبالمقابل یاتقابلی اندازمیں دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن ہر شعبے میںچاہے وہ نظریۂ اشتراکیت ،جمہوریت سرمایہ داری اور نیشنلزم جیسے نظریات جو اقبال کے زمانے میں ایک نمایاں حیثیت سے سماج میں فروغ حاصل کر رہے تھے،یا مغرب کے بیش ترمفکرین جواقبال کے لئے ایک مثالی کردارنظر آتےہیں۔ لیکن اقبال کے نزدیک روحانیت اور مذہبی اقدار کے بغیر ان سب کا فلسفہ بھی ایک نامکمل فلسفہ معلوم ہوتاہے۔اسی طرح مختلف سیاسی نظریات کے اعتبار سے بھی ان کا نقطۂ نظر مشرقی تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہمیشہ مشرقی روحانیت کوپیش کرنے کی کوشش ہی کی وجہ سے علامہ کو شاعر مشرق جیسے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔جیسا کہ میں نے کہا کہ مصنف نے اس حوالے سے ایک اہم بحث کی ہے، لہٰذاکتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہو جاتا ہے۔
دوسرا سوال جو میرے ذہن میں ہمیشہ اُلجھن پیدا کرتا تھا وہ یہ کہ اقبال جس کے افکار و نظریات انسانیت کے ارد گرد گھومتے ہوئے نظر آتے ہو ،وہ نیشنلزم جیسے نظریہ سے کیسے اتفاق کر سکتا ہے۔ لیکن مصنف نے اس کتاب میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ علامہ اقبال کے یہاں ابتدائی شاعری میں جو وطن کا تصور ہے وہ نیشنلزم سے کتنا مختلف ہے ۔اقبال کے یہاں ترانہ ہندی ،تصویر درد ،ہمالہ ،قومی بچوں کا گیت اور نیا شوالہ جیسی نظموں میں حب الوطنی کا تصور ہے نہ کہ نیشنلزم کا، اس حوالے سے(حب الوطنی اور نیشنلزم : ایک بنیادی فرق) ایک الگ باب ہے جس کا مطالعہ ااس سوال کو کھول کے رکھ دیتا ہے ۔
مغربی تعلیم کے حوالے سے یہ چیز واضح ہو جاتی ہیں کہ مغرب میں جوش و عمل اور جذبہ و خود داری ، حقائق کی جستجو اور تعمیر خودی کے ذوق کے باوجود علامہ اقبال مغربی علوم کے حصول کے وقت محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں مغربی نظام تعلیم میں ایسی کوئی خوبی نظر نہیں آتی جو انسان کے اندر روحانیت ، خودی کی تربیت اور اسے استحکام بخشنے کا ذریعہ بن سکے بلکہ یہ نظام تعلیم بھی لادینی اور بے یقینی کے خیالات کو ہوا دیتا ہے ۔مصنف نے اسی فکرکے تحت اس تحریر کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اس کتاب کی ایک اور خاص بات یہ ہے جو مصنف نے اپنے پیش لفظ میںبھی لکھا ہے چونکہ مصنف اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی یونیورسٹی آف کشمیر میں کئی سال سے درس وتدریس کا کام انجام دے رہےہیں،لہٰذا وہ لکھتے ہیں:
ـ’’میں نے اس چیز کو محسوس کیا کہ open elective کے طلباء و طالبات جو مختلف شعبہ جات سے اس کورس کو شوق سے پڑھتے ہیں انہیں syllabusکے مطابق ایک کتاب کی ضرورت ہے، لہٰذا راقم الحروف نے open elective کے چاروں سیمسٹروں کے کچھ موضوعات کو بھی اس کتاب میں زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے جس میں ’’ علامہ اقبال کا تصور حب الوطن اور نیشنلزم ‘‘،’’اقبال کا تصور تعلیم اور عصر حاضر‘‘ ،’’اقبال کے فکر وفن میں سائنسی رجحانات ‘‘،’’اقبال کے فکرو فن میں معاشی تصورات‘‘،’’اقبال اور جدید نظریہ ہائے حیات (سوشلزم ،کیپٹلزم ،جمہوریت )‘‘،’’اقبال اور مغربی مفکرین ،اقبال کاعہد ،اقبال کاتصور مذہب‘‘بہت اہم ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ نے گرچہ ان تمام خود ساختہ نظریات یا جو بھی نظریات مذہب سے انحراف کی صورت میں ابھر کر سامنے آتے ہیں، کو ہدف تنقید بنایا ہے، کیا ان کے پاس کوئی ایسا نظام موجود ہے جو ان تمام کا متبادل ہو، اس کا جواب کتاب کے آخری باب اقبال کا کامل نظام و سوسائٹی کا نظریہ،قرآن کا نظریہ سیاست،امن کا قیام، عدل کا قیام، معاشرے کی اصلاح،کے اس موضوع سے واضح ہو جاتا ہے ۔
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال نے جو مغربی نظریات و افکار کا تنقیدی محاکمہ کیااور اِن کے معائب و نقائص کی نشاندہی کی ہے، دراصل ان کا یہ انحرافی نقطہ نظر نہ صرف آج بھی معنویت رکھتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت و افادیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اقبال کی افہام و تفہیم میں اس کتاب سے ضرورمدد ملے گی ۔یہ کتاب خاص کر آج کل کے ان نوجوانوں کے لیے مفید ثابت ہوگی جو اقبالیات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹرمحمد امین میرصاحب کو میں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک اہم موضوع پر تحقیقی انداز میں ایک جامع اور مدلل تجزیہ پیش کیا ہے ۔