ڈاکٹر تبسم آراء ،حیدر آ باد
انشائیہ اردو کی ایک ممتاز صنف ِ ادب ہے ۔انشائیہ نگاری کی تحریک میں ہندوستان سے شامل ہونے والے ادیبوں میں احمد جمال پاشاہ اور رام لعل نابھوی کے بعد تیسرا نام محمد اسداللہ کا ہے۔ موصوف 1958ء کو ضلع امراوتی کے گاؤں وروڈ میں پیدا ہوئے۔ ان کی تربیت تہذیب یافتہ گھرانہ میں ہوئی۔ یہ ناگپور میں پیشۂ تدریس سے وابستہ تھے۔ ابتداء میں ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد میں طنزیہ ومزاحیہ مضامین لکھے۔ ان کی تحریروں میں بھی انشائیہ نگاری کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر وزیرآغا کی انشائیہ نگاری کی تحریک سے وابستگی کے بعد ایک نیا انداز محمد اسداللہ کی تحریروں میں نمایاں ہوا۔ ان کے بیشتر انشایئے ماہنامہ اوراق، ادبِ لطیف اور تخلیق میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کے انشائیوں کے تین مجموعے منظرِعام پر آچکے ہیں۔ انشائیوں کا پہلا مجموعہ 1991ء میں ’’بوڑھے کے رول میں‘‘ مہاراشٹرا اسٹیٹ اُردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ اِس کتاب میں 15انشایئے شامل ہیں۔ اِس مجموعہ کا پیشِ لفظ وزیرآغا نے تحریر کیا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکی ہے؛ جبکہ بھارت میں تاحال صرف تین انشائیہ نگاروں نے اِس میدان میں قدم رکھا ہے۔ اِن میں دومنجھے ہوئے ادیب یعنی احمدجمال پاشاہ اور رام لعل نابھوی ہیں،اور تیسرا نوجوان انشائیہ نگار محمد اسداللہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر وزیر آغا رقمطراز ہیں کہ:’’ محمداسداللہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میں بھی تازہ کاری اور اُپچ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے ہاں ندرتِ خیال ہے جو بنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست پر ہمیشہ سے کندہ ذہن رہی ہے۔ اس نے زندگی کو دوسروں کی نہیں خود اپنی نظر سے دیکھا ہے اور اسی لیے اِس کے ہاں ردِّعمل شخصی اور ذاتی نوعیت کا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اور انشائیہ نگاری کے سلسلہ میں اِس بات کی بڑی اہمیت ہے۔‘‘
محمداسداللہ کی دوسری تصنیف ’’پُرزے‘‘ 1992ء میں منظرِعام پر آئی جو فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی۔ اِس تصنیف میں طنزیہ ومزاحیہ مضامین انشائیہ اور خاکے شامل ہیں۔ اِس کتاب کا مقدمہ یوسف ناظم نے تحریر کیا ہے۔
ان کا تیسرا مجموعہ ’’ہوائیاں‘‘ جو آل انڈیا ریڈیو سے نشرشدہ طنزیہ ومزاحیہ مضامین اور انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب 1998ء میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں 18 طنزیہ مضامین وانشائیے شامل ہیں۔محمد اسد اللہ نے انشائیے تخلیق کر نے کے علاوہ اس صنف سے متعلق تحقیقی کام بھی انجام دیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی کتابیںا نشائیہ کی روایت مشرق ومغرب کے تناظرمیں، یہ ہے ا نشائیہ، ا نشائیہ شناسی ،ا نشائیہ ایک خوابِ پریشاں اور ڈبل رول قابلِ ذکر ہیں ۔
ا نشائیہ کی روایت مشرق ومغرب کے تناظرمیں؛ محمد اسداللہ کا تحقیقی مقالہ ہے، اِس میں اِنہوں نے نہ صرف انشائیہ کی تاریخ قلمبند کی ہے بلکہ انشائیوں کا بھی بھرپور تجزیہ کیا ہے۔ اِنہوں نے انگریزی اور مراٹھی کے انشائیہ سے بھی اِستفادہ حاصل کیا ہے۔ وہ مراٹھی مزاحیہ ادب کے مترجم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اُن کے انشایئے پاکستان سے شائع ہونے والے رسائل اوراق، تخلیق ،ادبِ لطیف، امریکہ سے دستک ہندوستان سے شاعر آجکل، ایوانِ اُردو، جواز، تعمیر، شگوفہ، آہنگ وتحریک وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کے انشائیوں میں اسلوب کی ندرت کے ساتھ معنی خیز جملے اور موضوع کو انوکھے انداز سے پیش کر نے کا سلیقہ انھیں ایک منفرد انشائیہ نگار ثابت کرتا ہے ۔ ان کے شعور کی پختگی کا اندازہ ان مشہور ومعروف انشائیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے؛ انشائیہ ’بوڑھے کے رول میں‘ کے اس اِقتباس سے ان کی سوچ کا نیا انداز ظاہر ہوتا ہے:
’’کل ہی کی بات لیجئے… میں اپنے آپ سے وفاداری کا تہیہ کرکے اپنے اندر اُترا۔ اور آواز لگائی۔ اے میرے! ’’میں‘‘ذرا باہر آئیں۔ تیرا وفادار بن کر زندگی گزارنا چاہتاہوں۔ ایک لمحہ کے توقف سے ایک انتہائی نحیف ولاغر بوڑھا لاٹھی پٹختاہوا باہر آیا۔ میں اِسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودیا……۔ اِس بوڑھے کی طرح جس کی اولاد ناخلف نکل گئی ہو۔‘‘
ایک اور انشائیہ نافرمانی کا اقتباس ہے:’’نافرمانی ایک سکہ ہے۔ جس کا دوسرا پہلو یقینا فرمانبردار ہے۔ یہاں کی فرمانبرداری والا پہلو نفسیاتی خباثت میںڈوبا ہوا تھا۔ شاید اِسی لیے خدا نے انسان کوبھی نافرمانی کے آلات سے لیس کیا تھا؛ تاکہ اُسے خیروشر میں تمیز کرنے کی صلاحیت حاصل ہوسکے۔ فرشتے عبادت کے ذریعہ اپنا دفاع تو کرسکتے تھے البتہ یقین کی سطح پر خدا کی ذات کے اثبات کی ایک ارفع صورت یہ قرار پائی کہ خدا کے ماسواء کی نافرمانی (نفی) کی جائے؛ تاکہ خدا کی ذات کے اثبات خودبخود نمودار ہوجائیں۔‘‘
محمد اسداللہ کے انشائیوں کے عنوانات ہی نئے انشائیہ نگاروں کے موضوعات سے مماثلت رکھتے ہیں؛ مثلاً: چوہوں سے نجات کی خاطر…… پریس کیے ہوئے کپڑے… انڈا اور لحاف وغیرہ۔
محمد اسد اللہ کے انشائیہ بخار سے ایک اقتباس درجِ ذیل ہے:’’بخار دراصل ایک مراقبہ ہے جس میں آدمی پر انکشاف کے نت نئے دروازے کھلتے ہیں۔ بخار میں جہاں مریض کو بُرے بُرے خواب دکھائی دیتے ہیں وہیں کچھ حقیقتیں بھی اس کے سامنے دست بستہ حاضر ہوتی ہیں۔ منجملہ ان حقائق کے اس کی بے بسی، بے بضاعتی اور بے مصرفی بھی ہے۔ اس کے سامنے اس کی شخصیت کے دونوں پہلو آئینہ ہوجاتے ہیں کہ وہ جتنا کارآمد سمجھا جاتا ہے وقت پڑے تو اُتناہی ناکارہ بھی ہے‘‘۔
عموماً عام اور صحت مند آدمی چست ‘چاق وچوبند رہتا ہے۔ لیکن جب بیمار ہوجاتا ہے ۔ اور بخار وغیرہ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کو اپنی حماقت اور رعب سب کچھ ختم ہوجاتاہے اور اس کو اپنی حقیقت کی پہچان ہوجاتی ہے کہ آدمی کس طرح بے بس اور ناکارہ ہے جو دوسروں کا محتاج ہوتا ہے ۔ اس طرح اس کی اپنی اوقات بیماری یاد دلاتی ہے ۔