شہباز رشید بہورو
ترقی کے منازل طے کرنے کے لئے جذبہ ،لگن ،صبر اور محنت درکار ہوتا ہے۔متعین منزل کو پالینے کے لئے ارادہ ،اقدام اور تسلسل قائم رکھنا از حد ضروری ہے ورنہ خوابوں میں نہ جانے انسان کیا سے کیا کر جاتا ہے یہاں تک کہ ستاروں پر کمند ڈالتا ہے ،آسمان کو چھو لیتا ہے اور سمندر کو کوزے میں بند کرلیتا ہے ۔ لیکن مذکورہ بالا لوازمات کے بغیر یہ سب کچھ بس نیند اور موت کی صفات ہوتی ہیں۔منزل کو پالینے کے لئے ناکامیوں سے سبق حاصل کرنا منزل پر اترنے سے پہلے منزل پراستقرار کرنے کے مترادف ہے۔قدرتی قوانین کے تحت یہ مسخر کی گئی کائنات انہی کے لئے در کھولتی ہے جو فتح کرنے کے لئے مفتاح کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ مفتاح انسان کی محنت و مشقت میں مستور ہوتی ہے۔تسخیر کائنات کے معاملے میں ایمان اور عقیدے کا پہلو اتنا اہم نہیں جتنا انسان کاذہنی تفکر اور مادی اقدام اہم ہوتا ہے۔اگرچہ اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ روحانی تسخیرِ کے لئے ایمان اور معتبر عقیدہ ہی درکار ہے جس کے بغیر انسان کا حقیقی معنیٰ میں اخلاقی طور انسان بننا ناممکن ہے۔خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر بروقت کلام کرنا مقصود نہیں۔
مغرب کی سائنسی برتری سے کون واقف اور متاثر نہیں۔مغرب نے مشرق کوکئی صدیوں تک اپنی سائنسی ترقی کی بنیاد پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محکوم قوم جہاں اپنی حاکم قوم کے ظلم کو برداشت کرتی ہے وہیں ان کی عادات واطوار سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی ،اور اس کے ساتھ ساتھ ایک احساس بھی اپنے اندر پیدا کرتی ہے کہ مجھے اپنی بقا واستحکام کے لئے کچھ ٹھوس اقدام اٹھانا پڑے گا تب جا کر غلامی کی لہروں میں پھنسے ہوئی مستقبل میں زندہ رہنے کی کوئی امید بر ہو سکتی ہے۔اسی تناظر میں ہم اپنے ملک کا جائزہ لیتے ہیں انگریز کی دو سو سالہ غلامی میں ہندوستان کی تاریخ میں ایسی ایسی شخصیات نمودار ہوتی ہیں جو پوری دنیا میں اپنی ذہانت کا سکہ منوا لیتے ہیں۔انہی شخصیات کے نقش قدم پر چل کر انڈیا آزادی کے بعد ترقی کے راستے پر گامزن رہتے ہوئے ہر شعبے میں استحکام اور پائیداری کی تحصیل کے لئے کوشاں رہاجو آخر کار اپنے اپنے وقت پر انڈیا حاصل کرتا ہے ۔اسی طرح سے زیر بحث موضوع کے حوالے سے بھارت نے جس محنت ،مشقت ،لگن اور سرشاری کا ثبوت دیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔خلائی ٹیکنالوجی میں ایک وہ ملک جو دو سو سال برطانیہ کا غلام رہا آج اسی محکوم ملک نے حاکم ملک کو مات دی اور امریکہ ،روس اور چین کے بعد چھوتھا ایسا ملک بناجس نے نہایت کامیابی کے ساتھ سپیس کرافٹ کو چاند کی زمین پر کامیابی کے ساتھ اتارا۔اس کے علاوہ بھارت نے چاند کے جنوبی قطب پر سپیس کرافٹ اتارکر پوری دنیا میں پہلا نمبر حاصل کیا۔
بھارت کی سپیس ایجنسی اسرو نے چندریان 3 مشن کو جولائی میں لانچ کیا تھا جو مسلسل 40دن خلا میں سفر کرنے کے بعد سطحِ قمر پر سوفٹ لینڈینگ کرتا ہے۔سوفٹ لینڈینگ کا مطلب ہوتا ہے کہ سپیس کرافٹ بغیر کسی ادنی نقصان کے بھی چاندکی سطح کو چھوتا ہے۔سپیس کرافٹ کی سوفٹ لینڈینگ کے بعد چندریان 3کا مقصد چاند پر کچھ خاص تجربات کرنے کے ہیں۔جس میں اس مشن سے منسلک سائنسدانوں کی ٹیم چاند کی سطح پر درجہ حرارت کی مستندتشخیص ،چاند پر زلزلوں کی شدت ،وہاں پر موجود مٹی اور پتھروں کی کیمیائی کمپوزیشن اور فضائی ماحول کا جائزہ لیں گے۔چاند کا جنوبی قطب اس لحاظ سے بھی تجربات کے لئے اہم ہے کیونکہ وہاں سے جمے ہوئے پانی کی موجودگی کے کچھ آثار دریافت ہونے کا امکان ہے۔بھارت نے چاند پر پہنچنے کے لئے پہلے بھی 2019میں کوشش کی تھی جس میں چندریان 2جو آخری لمحات میں سوفٹ وئیر کی خرابی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔یاد رہے چندریان 3 کی کامیاب لینڈینگ سے پہلے روس نے 1976کے بعد پہلی بار لونا 25سپیس کرافٹ کو چاند کی سطح پر اتارنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔نا سا نے بھی پہلے اعلان کیا تھاکہ ارٹیمس مشن 2 کے تحت وہ چاند کی سطح پر انسان کو جلد اتارنے والا ہے ،لیکن اس سے پہلے چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنا لازمی ہے جواقدام بھارت نے امریکہ سے بھی پہلے کر لیا۔ اس لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس سے ملک کے سائنسدانوں کی مہارت پوری دنیا میں مانی جارہی ہے۔
چندریان 3 اور اس جیسے دیگر سپیس کرافٹس کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی اس وسیع کائنات میں پھیلی نشانیوں کو سمجھ کر اپنے مالک اور خالق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔قرآن بھی اس ضمن میں انسان کو اس کائنات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان کائنات کے حیرت انگیز مناظر کا مشاہدہ کرکے اس دنیا میں اپنی حیثیت اور وقعت کو سمجھے۔آج پوری دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعریف تو کر رہی ہے لیکن مسلسل اللہ کی ناشکری اور نافرمانی میں ملوث ہوتی چلی جارہی ہے اور جس اخلاقی باختگی کا جدید انسان مظاہرہ کررہا ہے،وہ یقینی طور انسان کے لئے کسی خطرے سے کم نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تسخیر کائنات کے ہر عمل سے صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)