بلال احمد پرے۔ ترال
گذشتہ ہفتہ بحر اوقیانوس میں ٹائی ٹینک کے ملبے کی جانب سفر کے دوران تباہ ہونے والی ٹائٹن نامی سیاحتی آبدوز (سب مرسی بل )میں پاکستانی صنعتکار حسین داود کے بیٹے شہزادہ داود اور پوتے سلیمان داود سمیت تمام 5مسافرہلاک ہوگئے ۔اس حادثے میں کمپنی کے سی ای او اسٹاکٹون رش ،برطانوی ارب پتی ہمیشن ہارڈنگ اور فرانسیسی سب میرین آپریٹر پاول ہینری بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس بدقسمت ٹائٹن نامی سیاحتی آبدوز کے ملبے کے سراغ تو مل گئے ہیں لیکن آبدوز میں سوار تمام مسافروں کی لاشیں ملنے کا امکان ناممکن ہوچکا ہے۔ اس سیاحتی سفر کو میڈیا نے ’’موت کا سفر‘‘ یا ’’خیریدی گئی موت‘‘ کا نام دیا ہے ۔ یہ سبھی افراد دراصل بحر اوقیانوس میں ٹائی ٹینک جہاز کا ملبہ جو ۱۵ ؍اپریل ۱۹۱۲ء میں غرق ہو گیا تھا کو دیکھنے کے لئے آبدوز میں بطور سیاح سوار تھے۔ایک امریکی کوسٹ گارڈز کےرئیر ایڈمرل جان ماوگر نے بوسٹن میں صحافیوں کو بتایا ہےکہ ٹائی ٹینک کے ملبہ قریب سمندر کی تہہ میں ملنے والے ملبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاحتی آبدوزپانی کے شدید ترین دباؤ کی وجہ سے کچلی گئی ہے۔یاد رہے کہ اوشین گیٹ کی کمپنی ٹائی ٹینک کے ملبے تک کے تفریحی سفر کا انتظام چلاتی ہے اور جہاز کا ملبہ دیکھنے کے لئے سیاحوں کو سمندر کی اندھیری گھاٹی تک لےجانے اور واپس لانے کی ذمہ داری سنہ ۲۰۰۹ء سے بخوبی انجام دیتی آئی ہے ۔ جس کے عوض میں یہ کمپنی اڑھائی لاکھ ڈالر فی سواری حاصل کرتی ہے ۔حالانکہ دنیا نے ۱۹۸۵ء میں ٹائی ٹینک کا ملبہ تلاش کیا ۔ جو اُس وقت ۱۵۰۰ ؍مسافروں کی قبر بن گیا تھا ۔ جسے اُس وقت عذاب الٰہی کے سوا کچھ اور نہیں کہا جاسکتا اور یہ تاریخ میں سب سے بڑا سمندری حادثہ تھا ۔ اس پر کئی ڈرامے و فلمیں بنائی گئی اور کئی افسانے و کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹائی ٹینک کو ایک سو بارہ سال قبل ڈوب جانے کے باوجود آج تک یاد کیا جارہا ہے۔جبکہ غرق شدہ جہاز جس میں پندرہ سو افراد سوار تھے،کے باقیات آج بھی سمندر کی نچلی سطح میں موجود ہیں اورپچھلی ایک صدی تک دنیا کا کوئی بھی فرد سمندر کی اُس سطح تک جانے سےقاصر تھا۔ سمندر کے اندر موج در موج، اندھیرا ہی اندھیرا ہونے سے کسی بھی قسم کی آگاہی نہ تھی ۔ جدید بحری تحقیقات نے اس قسم کی اندھیری کو پچ ڈارکنس (Pitch Darkness) یا مِڈ نائٹ (Mid Night) جیسے نام دے کر زمین پر رہنے والے انسانوں کو آگاہ کر دیا ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ٹائی ٹینک کے ملبے کے ارد گرد سمندری فرش ہر طرح کے ملبے سے بھرا پڑا ہے اوراب لوگ ٹائی ٹینک جہاز کے ملبے کو دیکھنے کے لئے سیّاح بن کر جاتے ہیںاور اس خطرناک اور عبرت ناک مقام کو تفریح گاہ بنا دیا ہے ۔ حالانکہ اس طرح کے مقام پر جانے سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرح کے مقام میں داخل ہونے سے منع فرمایا ہے ۔
مشہور واقع ہے کہ جب حضرت نبی اکرمؐ غزوہ تبوک کے سفر کے دوران علاقہ مدائنِ جو حضرت صالحؑ کی عذاب یافتہ بستی پر ہوا تو آپؐ نے اپنے جانثار صحابہ کبارؓ سے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ان کے ٹھکانوں (رہائش گاہوں) میں داخل ہوتے وقت پچھلے لوگوں کے بُرے انجام سے عبرت لیتے ہوئے اور اللہ کے عذاب کے خوف سے روتے ہوئے داخل ہو جانے کو فرمایا، اگر رونا نہ آئے تو ایسی جگہوں میں داخل ہونے سے منع فرمایا، ایسا نہ ہو کہ جو عذاب ان لوگوں پر نازل ہوا، ویسا ہی عذاب ان پر بھی نازل نہ ہو جائے، اور حضوراکرمؐ نے صحابہ کرام ؓ کو اس علاقہ سے تیزی سے گزرنے کا حکم فرمایا ۔ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس علاقہ کے کنوؤں سے پانی بھرنے سے منع فرمایا ۔ جب کہ بعض نے اس پانی سے آٹا بھی گوندھ لیا تھا، تو رسول اللہؐ نے اس پانی اور آٹے کو گرانے کا حکم دیا ۔اس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ درس دیا ہے کہ جن بستیوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے، وہ بستیاں عبرت گاہیں ہیں، جن سے گزرتے ہوئے توبہ و استغفار کے ساتھ جلدی سے گزرنا چاہئے اور ایسی بستیوں یا مقامات کو سیر گاہیں اور تفریح گاہیں کے طور تصّور نہیں کرنا چاہیے ۔
اللہ رب العزت نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰؐ پر قرآن نازل فرمایا ،جس میں سمندر کے اندران تاریک گھاٹیوں سے متعلق بھی آگاہ کیا۔ لیکن انسان اپنی کم علمی، کم ظرفی اور فہم ادراک کی کمی کی وجہ سے اس پر اس قدر غور و فکر نہ کر سکا اور نہ ہی انسان نے سمندر کی گہرائی میں جھانک کر پہلے یہ دیکھا تھا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اس پر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل پر تاریکی مسلّط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے ۔ جسے اللہ نور نہ بخشے ،اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں ۔‘‘ (النور۔ 40)
حالانکہ یہاں اس آیت مبارک میں ٹائی ٹینک جہاز یا آبدوز کے متعلق تو بیان نہیں فرمایا گیا ہے بلکہ یہاں رب الزوجلال نے ایک ایسی مثال کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ جس میں برابر اسی طرح کی تاریکی کو بیان فرمایا گیا ہے جو ٹائی ٹینک سب میرین آبدوز کمپنی نے وہاں دیکھ کر بیان کیا ہے ۔ اس مثال میں تمام کفار و منافقین کی حالت بیان کی گئی ہے جن میں نمائشی نیکیاں کرنے والے بھی شامل ہیں ۔ ان سب کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی قطعی اور کامل جہالت کی حالت میں بسر کر رہے ہیں ۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی جگہ پھنسا ہوا ہو، جہاں مکمل تاریکی ہو، روشنی کی ایک کرن تک نہ پہنچ سکتی ہو ۔
سمندر میں موجوں کے اوپر موج کا چلنا حقیقت ہیں اور یہ موجیں گہرے بادل جیسی ہوتی ہیں اور اس طرح سے یہ ایک ایسی اندھیرا پیدا کرتی ہیں جس میں ایک انسان کی بینائی جواب دے جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ اس سے اپنا ہاتھ نظر نہیں آتا ۔
یہاں قرآن کریم سے رہنمائی سائنٹیفک معجزہ کے طور پر اُبھر کر سامنے آتی ہے ۔ جس سے حکمت و دانائی اور علم و عقل رکھنے والے انسان اپنا ایمان تر و تازہ کر دیں گے اور رب العالمین پر اپنا یقین مستحکم بنا دیں گے ۔ اس واقع سے نہ جانے کتنے انسانوں کے ذہن تاریکی سے نکل کر نورِ حق کی طرف آئیں گے اور نہ جانے کتنے انسانوں کو دماغ کے دریچے کُھل جائیں گے ۔
چونکہ یہ کہنا قبل از وقت درست نہیں کہ ٹائی ٹینک سب میرین آبدوز میں مقیم پانچ سوار اپنے ساتھ آکسیجن موجود ہونے پر صرف چار روز تک زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ خالقِ کائنات اور مالکِ کل کے جہاں کا نظامِ ِقدرت کا کوئی مقابلہ نہیں ۔ وہ ذات اپنے آپ میں کُن فیکون ہے ۔ جس سے وہ روشنی دے، اس سے کوئی اندھیر گھاٹی ذرا بھر نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے ۔ اور چاہئے تو اپنے ذوالنون والے پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام جنہیں مچھلی نے نگل لیا تھا، کی طرح ان مسافروں کو بھی سمندر کی مخلوق مچھلی کے شکم میں بحفاظت پناہ دے سکتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’اور مچھلی والے حضرت یونس ؑکو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے خفا ہو کر چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اس سے نہ پکڑ سکیں گے ۔ بالآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اُٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں میں ہو گیا ۔‘‘ (یونس۔ 87)
یہاں رب العالمین نے پھر سے سمندر کے اندر تاریکیوں کا تذکرہ کیا ۔ جب عظمت و فضیلت والے نبی حضرت یونسؑ ایک طرف مچھلی کے پیٹ میں سے تاریکی میں پھنس گئے تو دوسری جانب سمندر کی تاریکی نے آگھیرا ہے ۔ جونہی آپؑ نے خفا ہونے اور ناراضگی کے عالم میں مامور بستی سے نکلنے کا اعتراف کیا اور اللہ سے اپنے نفس کے اوپر ظلم کرنے کا اقرار بھی کیا، تو اس پر رب العالمین نے اپنے اس سچے نبی کو بحفاظت نکال کر دوبارہ زندگی بخشی ۔
واضح رہے کہ یہ سیاحتی آبدوز کینیڈا کے جزیرے نیو فاؤنڈلینڈ سے روانہ ہوئی تھی، اور سفر کے آغاز کے ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی آبدوز کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا،ٹائی ٹینک جہاز کا ملبہ نیو فاؤنڈلینڈ کے ساحل سے تقریباً 600 کلومیٹر دور بحر اوقیانوس میں 12 ہزار 500 فٹ گہرائی میں موجود ہے۔
رابطہ ۔ 9858109109