ایمن علی منصور
آج کے نوجوان دنیا و مافیا سے بالکل بے خبر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیںاور وہ اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ جس ملک و معاشرے میں انہوں نے آنکھ کھولی ہے، اُ سکی آزادی اور بقا کے لئے ہمارے اسلاف ، بزرگوںاورباپ دادائوں کی کتنی کاوشیں کی ہیںاورقربانیاں دے دی ہیں۔ نوجوانوں نےتو صرف کہانیاں ہی پڑھی ہیں۔ معاشروں کی بقا اور ملک کی آزادی اور معاشروں کے بقا کا درد تو وہی جانتے ہیں، جنہوں نے اِن کی خاطر تن من دھن، سب کچھ قربان کیا ہے، اس کے لئے جہاںہمارے بزرگوں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا تھا؟وہیں ماؤں کے لال بے دردی سے اُن کی آنکھوں کے سامنے مارے گئےہیں۔ انہوں نے کربناک ساعتیں گزاریں،تا کہ اُن کی آنے والی نسلیں آزاد معاشروں میں سانس لے سکیں۔ لیکن افسوس کہ آج جو کچھ ہمارے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے،اُسے دیکھ کر دُکھ اور کرب کی بھٹی جل اُٹھتی ہے۔
نئی نسل اس بات سے بالکل انجان ہے کہ ہم نے جس زمین پر چلنا سیکھا،اس کی مٹی میں سیکڑوں، ہزاروںلوگوں کا خون شامل ہے لیکن وہ اس بات سے بالکل بے خبر زندگی گزاررہے ہیں ۔ غور کریں، ایسے کتنے نوجوا ن ہیں جو عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، اُن کا جیب خرچ ہی ہزاروں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک دن بھی اپنا جیب خرچ کسی غریب کودینا گوارا نہیں کرتے۔ چھوٹے چھوٹے غریب بچوں کو بھی مزدوری کرتا دیکھ کر اُن کا دل نہیں کانپتا۔
حد تو یہ ہے کہ اگر ان کے سامنےکوئی بچہ مٹی میں لپٹا گندے میلے کپڑے پہنا اُن کے سامنے آجائے ،تو وہ اس پر ناک بھونیں چڑھاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم صرف ایک تماش بین ہیں جو تماشا دیکھنے کے بعد تالیاں پیٹ کر منظر سے چلے جاتےہیں۔ خدارا آگے بڑھیں، یہ زمین مزید ظلم نہیں سہہ سکتی، اپنی موبائل فون کی اسکرین سے ذرا نظریں ہٹا کر تو دیکھیں کہ ہمارے معاشرے کو کن مشکلات و مسائل کا سامنا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ صورت حال ابترہے لیکن اللہ سے مدد مانگی جائے اور احکام الہٰی کو مدنظررکھتے ہوئے کام کیا جائے تو معاشرہ بہتری کی جانب ضرور گامزن ہوگا۔ ملک و معاشرےکی بہتری کے لئے کام کریں، چاہے ایک سکہ سے شروعات کریں لیکن کریں ضرور۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایک دن کسی مزدور کو آگے بڑھ کر پانی کے دو گھونٹ پلا دئیں، کسی بچے کو اس کے کام کا معاوضہ دس روپے زیادہ دے دیں، کسی بہن کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیں، کسی ماں کو تسلی کے دو بول ہی بول دیں، اُس لمحے اُن کی خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ یقین کریں ترقی ہی چھوٹی چھوٹی نیکیوں میں چھپی ہے۔اصل بات ایثار اور ہمدردی کی ہےجو ہمارے اندر سے بالکل ہی معدوم ہوتی جا رہی ہے، ہم نے تکبر اور غرور کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔
اگر وہ غریب اور آپ امیر ہیں تو اس میں ان کا ہر گز کوئی قصور نہیں بلکہ یہ ان کے صبر اور آپ کے شکر کی آزمائش ہے۔ نرم بستروں اور من چاہے طعام و قیام میں تڑپتی روحوں کا اندازہ لگانا صرف کہنے کی بات ہے۔ بے شک اللہ بھی عدل و انصاف اور احسان کا حکم دیتا ہے۔نوجوانوں کو بھی حکم ا لٰہی پر پیروی کرتے ہوئےناانصافی کو ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ خواہ وہ کلاس روم سے ہی کیوں نہ شروع کریں۔
عدم مساوات سےمعاشرہ کو برباد ہو رہا ہے، لہٰذا آگے بڑھیں لوگوں کی مدد اپنی گلی کے غریب بچوں سے شروع کریں، نئی نہیں تو اپنی پرانی کتابیں بچوں کو تقسیم کریں ،اُن بچوں کو آداب ضرور سکھائیں۔ اپنے خاندان کی بیٹیوں کی عزت کریں، ان کی عزتیں پامال ہونے نہ دیں۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور نئی نسل کودنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی بہرہ ورکریں۔ذرا نظر اُٹھاکر دیکھ لیں کہ کیسے آج کی نئی نسل قلم پکڑنے کے بجائے سگریٹ پکڑتی ہے۔اس لئےنوجوانوں کوچاہئے کہ لاٹھی لے کر دَھکا دینے والے نہیں بلکہ ہاتھ بڑھا کر سہارا دینے والے بنیں۔ اُستاد کا احترام کرنےوالے بنیں، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات منوانے والے نہیں بلکہ محترم انداز میں نظریں جھکا کر بات منوانے والے بنیں ۔ اپنی زندگی کا قبلہ درست کریں ،وہ زندگی جئیں جو اسلام سکھاتا ہے، وہ نہیں جو آج کے نوجوان مغربی اقدار سے سیکھ رہے ہیں۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)