اسد مرزا
ہاؤس آف کامنز کی انٹیلی جنس اینڈ سیکورٹی کمیٹی کی چین کے بارے میں انتہائی منتظر رپورٹ 13 جولائی کو پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔ کمیٹی نے برطانیہ میں چین کے اثر و رسوخ اور مداخلت کی سرگرمیوں کا پتہ لگانے میں مشکلات کو قبول کرتے ہوئے یہ بھی سوال کیا کہ کیا حکومت واقعی ان کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے؟ حکومت کی بے حسی یا خواہش کی کمی پر سوال اٹھاتے ہوئے کمیٹی نے کہا:’’چین کے حجم، عزائم اور صلاحیت نے اسے برطانیہ کی معیشت کے ہر شعبے میں کامیابی کے ساتھ مداخلت کے قابل بنایا ہے۔‘‘
کمیٹی نے مزید کہا کہ اگرچہ چین کی مداخلت کے بارے میں بہت کچھ کہااور سنا گیا ہے، لیکن عملی سطح پر برطانوی حکومت کے پاس ابھی تک کوئی ایسی جامع حکمت عملی نہیں ہے جس کے ذریعے وہ برطانیہ میں موجود چینی کمپنیوں کو کاروبار کرنے اور نئی کمپنیوں کے آنے پر کنٹرول کرسکے۔ نو رکنی کمیٹی نے اپنی انکوائری 2019 میں سر جولین لیوس ایم پی کی سربراہی میں شروع کی تھی، اور اس نے تعلیمی، صنعتی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کے ساتھ برطانوی پیشرفت کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت کی کوششوں کی تفتیش کی تھی۔ خاص طور سے ایسے شعبوں میں جہاں برطانیہ نے آسان شرائط پر مختلف چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کو قبول کیاتھا اور چینی فنڈنگ بغیر کسی معمول کی مستعدی کے حاصل کی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘چین برطانیہ اور اس کے مفادات کو بڑے پیمانے پر اور جارحانہ انداز میں نشانہ بنارہا ہے، کیونکہ اس کے پاس بظاہر دنیا کا سب سے بڑا انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کے عالمی تکنیکی اور اقتصادی مرکز بننے کے عزائم کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیںاور اس کوشش میں وہ’’برطانیہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘ بن گیا ہے جو اس کے اشرافیہ اور فیصلہ سازوں کو نشانہ بنا تا ہے،جن کے ذریعے وہ خفیہ معلومات اور تحقیق دونوں کو حاصل کررہا ہے اور واضح طور پر عالمی تکنیکی بالادستی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
برطانیہ۔ چین تعلقات
گزشتہ اپریل میں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں سیکرٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے برطانیہ سے چین کے ساتھ زیادہ تعمیری لیکن مضبوط تعلقات رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ چین کو تنہا کرنا برطانیہ کے قومی مفادات کے خلاف ہوگا۔
سکریٹری خارجہ نے چین کے خلاف سخت گیر رویہ اختیار کرنے کے لئے کچھ سینئر کنزرویٹو پارٹی ممبروں کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا تھا اور اس کے بجائے دلیل دی تھی کہ برطانیہ کو’انسانیت کے بڑے مسائل‘ سے نمٹنے کے لیے بیجنگ کے ساتھ اشتراک کرنا چاہیے۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے چین پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی فوجی توسیع کے بارے میں شفاف ہو اور بیجنگ پر ’’امن کے وقت کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی تعمیر‘‘ کا الزام لگایا تھا۔ خطاب میں چین میں مسلم اقلیت ایغوروں کے خلاف چینی جبر کی بھی مذمت کی گئی تھی۔ بیجنگ پر انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے اور ہزاروںایغور مسلمانوں کو کیمپوں میں زیرِ حراست رکھنے کا بھی الزام ہے۔
تاہم خارجہ سکریٹری کے اس تبصرے کے بالکل برعکس برطانوی وزیر اعظم رشی سناک نے گزشتہ سال اسی مقام پر اپنی پہلی خارجہ پالیسی تقریر میں کہا تھا کہ چین کے ساتھ تعلقات کا ’’سنہرا دور‘‘ ختم ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ’’یہ غلط خیال‘‘کہ مغرب کے ساتھ زیادہ تجارت چینی سیاسی اصلاحات کا باعث بنے سکتی ہے، بھی غلط ثابت ہوا۔ اس کے بجائے انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ کواپنی خواہش مندانہ سوچ کو ’’مضبوط عملیت پسندی‘‘ سے بدلنا ہوگا۔
برطانیہ میں چینی کاروبار
207 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں برطانیہ کی قومی سلامتی کے مسائل کی تحقیقات کے علاوہ برطانوی ٹیلی کام انفراسٹرکچر میں چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے متنازعہ کردار کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ برطانیہ کے 5G نیٹ ورک میں ہواوے کی شمولیت سے متعلق تنازعات، ہانگ کانگ کی سابق برطانوی کالونی میں شہری آزادیوں کو لاحق خطرات اور جاسوسی اور برطانیہ میں چین نواز تجارتی مہمات کے خطرے کے
بعد حالیہ برسوں میں چین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات مجموعی طور پر پہلے کے مقابلے میں کشیدہ ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ گزشتہ برسوں میں برطانوی انٹیلی جنس شعبے نے اپنی کوششوں کو دہشت گردی پر مرکوز رکھا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ تسلیم کرنے میں ناکام رہا کہ برطانیہ میں چینی مداخلت کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری بھی اس کی ہے۔
کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ قلیل مدتی سوچ ابھی تک حکومت کی سوچ پر حاوی ہے، اس نے وزراء اور حکومت پر زور دیا کہ وہ برطانوی سیکورٹی پالیسی تیار کرتے وقت طویل مدتی سوچ اپنائیں اور اس میں چینی مداخلت کو سرِ فہرست رکھیں۔رپورٹ میں دلیل دی گئی ہے کہ بیجنگ ایک تکنیکی اور اقتصادی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے یعنی کہ ایک ایسی طاقت جس پر دوسرے ممالک انحصار کریں،اوریہ سوچ برطانیہ کے لیے سب سے بڑے خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔
حکومت کی بے حسی
سیکورٹی کمیٹی نے حکومت پر برطانوی ٹیکنالوجی اور معیشت میں چینی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتے ہوئے قومی سلامتی کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ یہ برطانیہ کے محکمہ تجارت کو خاص طور سے نشان دہ کرتا ہے،کیونکہ اسی کے ذریعے زیادہ تر چینی کمپنیاں برطانیہ میں سرمایہ کاری کرکے اپنی طاقت کو بڑھانے میں کامیاب رہیں۔ اور محکمہ نے یہ نہیں سوچا کہ وہ یہ سرمایہ کاری کن شرائط اور ترجیحات پر حاصل کررہا ہے اور اس کا ملک کی سیکوٹی پر کیا اثر ہوگا۔کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ چین نے برطانیہ میں بھی اپنی جاسوسی کی کوششیں تیز کر دی ہیں، سول انٹیلی جنس افسران ’’بڑے پیمانے پر اور جارحانہ طور پر‘‘ انسانی انٹیلی جنس جمع کر رہے ہیں، اور ’’انتہائی قابل اور تیزی سے نفیس‘‘ سائبر جاسوسی کو انجام دے رہے ہیں۔
مجموعی طور پر سب کچھ کہا گیا اورسنا گیا ہے اور جس طریقے سے آئی ایس سی کی رپورٹ برطانوی حکومت کی چین کی جانب اس کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے کہ عملی طور پر وہ ہمیں برطانوی معیشت کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ سیاحت سے لے کر تعلیم تک، جہاں چینی مسافروں اور طلباء کوکم قیمت پر برطانوی ویزا دیا جاتا ہے، چینی سرمایہ کاروں اور اسٹارٹ اپ کو زیادہ مراعات دی جاتی ہیں اور دیگر ملکوں جن میں کہ ہندوستان سرفہرست ہے اس کے سیاحوں ، طالب علموں کو زیادہ قیمتوں پر ویزا دیا جاتا ہے اور ان کے ویزا پروسیس میں ہر طریقے کی رکاوٹ پیدا کی جاتی ہے۔اسی طرح ہندوستانی کمپنیوں کو چینی کمپنیوں کے مقابلے میں مراعات نہیں دی جاتیں۔اگر برطانیہ عالمی سیاست میں اپنی برتری کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے خود اور اپنے دیگر مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر چین سے بہت بڑے اور اسٹریٹجک سطح پر نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)
رابطہ کیلئے۔www.asadmirza.in
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔