سجاد بزاز
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کووڈ۔19وبائی مرض نے ہندوستان بھر کی پوری آبادی کیلئے ‘بلیک سوان’ واقعات کا ایک سلسلہ لایا۔ ایک ‘بلیک سوان’ ایک غیر متوقع واقعہ ہے جو عام طور پر کسی صورت حال کی توقع سے باہر ہوتا ہے اور اس کے ممکنہ طور پر سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ بلیک سوان کے واقعات ان کی انتہائی نایابیت، ان کے شدید اثرات، اور وسیع پھیلائو کی وجہ سے ہیں جو پس اندشی میں واضح ہوتے ہیں۔
گوکہ یہ ایک بے مثال انتہائی عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال تھی جس نے لاکھوں انسانی جانوں کونگل لیا ،تاہم اس نے معاشی لاک ڈاؤن کے ایک طویل سلسلہ کے ذریعے جغرافیوں کے معاشی منظر نامے کو بے دردی سے تباہ کر دیا۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کو بھی وائرس کے قہر کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے ملک کی معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔لاکھوں افراد نے ملازمتیں کھو دیں یا ان کی آمدنی میں زبردست کٹوتی ہوئی اور کام کرنے والی آبادی کا سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ نجی شعبے کے اداروں سے تعلق رکھتا ہے۔ ملازمین کے اس طبقے کو مالیاتی محاذ پر مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا اور کووڈ سے پہلے کی کمائی کی سطح پر واپس جانے کیلئے سخت محنت کی (اور محنت جاری رکھی)۔
تاہم ایک بات واضح ہے کہ کووِڈ 19 کی وبا کے پھیلنے سے نجی شعبے کے اداروں، خاص طور پر چھوٹے اداروںمیں کام کرنے کے منفی پہلو بے نقاب ہوئے۔ یہاں چھوٹے سائز کے نجی اداروںمیں کام کے اوقات انتہائی طویل ہوتے ہیں اور یہ نوکری دو اور نکالو،ملازمت اور اجرت میں کٹوتی اور مسلسل بڑھتے ہوئے کم تنخواہ والے بھاری کام کی پالیسی پر چلتے ہیں۔ وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالیاتی بحران کے درمیان،ہندوستانی بینکنگ انڈسٹری نے حکومت کے محرک پیکیجز کی مالی اعانت اور مختلف شعبوں میں اپنے صارفین کو مختلف رعایتیں دے کر ملک کی معیشت کو رواں دواں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس امداد نے لاکھوں گھرانوں کو مالی طور پر سہارا دینے میں مدد کی۔ تاہم چھوٹے سائز کے نجی اداروں کے ملازمین کو بینکنگ سسٹم سے مدد/ ریلیف حاصل کرنے کیلئے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ بینکوں نے سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے کارپوریٹس میں کام کرنے والوں کیلئے مختلف امدادی اقدامات کی توسیع کی، چھوٹے اداروں میں کام کرنے والے زیادہ تر بینکوں کے اس طرح کے رعایتی اقدامات کے دائرے سے باہر رہے۔
یہ صرف قرضوں کے شعبہ سے متعلق ہی نہیں ہے جہاں پرائیویٹ سیکٹر میں چھوٹے سائز کے اداروں کے ملازمین کو فنڈز تک آسانی سے رسائی سے محروم کر دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ انہیں ڈیپازٹ سکیموں میں رعایتیں بھی مشکل سے دی جاتی ہیں، جو کہ دوسری صورت میں حکومت اور بڑے کارپوریٹ سیکٹرکے تنخواہ دار ملازمین کو دستیاب ہوتی ہیں۔ بینکوں کے ساتھ نجی شعبے میں کام کرنے والے ملازمین سے ذاتی قرضوں پر سرکاری شعبے اور لسٹیڈ نجی کمپنیوں میں تنخواہ دار طبقے سے وصول کی جانے والی شرح کے مقابلے میں زیادہ شرح سود وصول کرنا ایک عام رواج ہے۔ یہ بتانا مناسب ہے کہ چھوٹے سائز کی نجی کمپنیوں میں ملازمین/کارکنان غیر رسمی شعبے میں آتے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جو انہیں باضابطہ نظام کے ذریعے مالیاتی خدمات حاصل کرنے کی راہ میںرکاوٹ ہے۔ مختلف رپورٹوں/سروے کے مطابق’’ہندوستانی افرادی قوت کا 80فیصد سے زیادہ غیر رسمی یا غیر منظم روزگار کے حالات میں کام کرتا ہے، جو کہ ہندوستان کی اقتصادی صلاحیت میں رکاوٹ ہے‘‘۔ ماہرین غیر منظم روزگار کے اس بڑے حجم کو ملک کو اپنی ممکنہ مکمل اقتصادیاتی استعداد تک پہنچنے میں رکاوٹ کے طور پرگردانتے ہیں۔
اب وبائی مرض کا اثر آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے اور معیشت تقریباً معمول پر آ چکی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ غیر رسمی یاغیرمنظم شعبے میں ملازمین/کارکنوں کو رسمی مالیاتی نظام میں شامل کیا جائے۔مختلف رپورٹوں کے مطابق غیر رسمی یا غیر منظم روزگار کے منظر نامے کے تحت ہندوستانی افرادی قوت مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً نصف پیدا کرتی ہے۔ مالیاتی شمولیت کے ذریعے افرادی قوت کی اس مقدار کو رسمی شعبے میں لانا ملک کو تیزی سے تیسری بڑی معیشت بننے کیلئے ایک بڑا دھکا ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ افرادی قوت کو باضابطہ بنانے کے اقدام میں مہارت کے فرق کو ختم کرنا، اجرت کے تفاوت کو دور کرنا، سماجی تحفظ کی ضمانت دینا وغیرہ شامل ہیں، لیکن ان کی مالی شمولیت انہیں مالی محاذ پر پراعتماد رکھنے کیلئے انتہائی اہم ثابت ہوسکتی ہے۔جب ان کی مالی شمولیت کی بات آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کیلئے بغیر کسی تفریق کے ڈیپازٹ اور لون دونوں حصوں میںمالی سکیموں کو تیارکریں۔
اس کالم کی نوعیت کے مطابق، آئیے پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو دستیاب مالی سہولیات کا جائزہ لیتے ہیں۔ تقریباً ہر بینک نے تنخواہ دار ملازمین کے اس طبقے کیلئے قرض کے ساتھ ساتھ ڈیپازٹ سکیمیں بھی تیار کی ہیں۔ مثال کے طور پرجموں وکشمیربینک نے اپنے کارپوریٹ سیلری پیکیج (CSP) کے تحت کارپوریٹس اور ملازمین کیلئے ایک ڈیپازٹ سکیم (سیونگ بینک اکاؤنٹس) کو اپنی مرضی کے مطابق بنایا ہے۔
سکیم کی اصل نوعیت کیا ہے؟
پرائیویٹ اداروں/کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کیلئے بینک کی جانب سے شروع کی گئی سکیم کی چار اقسام ہیں؛ پلاٹینم سیلری اکاؤنٹ، ڈائمنڈ سیلری اکاؤنٹ، گولڈ سیلری اکاؤنٹ اور سلور سیلری اکاؤنٹ۔25000 روپے تک مجموعی تنخواہ رکھنے والے ملازمین سلور سیلری اکاؤنٹ کے اہل ہیں۔ ملازمین جن کی مجموعی تنخواہ 25001 روپے سے50000 روپے تک گولڈ سیلری اکاؤنٹ رکھ سکتے ہیں۔ 50000 روپے سے زیادہ اور ایک لاکھ روپے تک کی مجموعی تنخواہ رکھنے والے ملازمین ڈائمنڈ سیلری اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں۔ اور جن کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے،وہ پلاٹینم سیلری اکاؤنٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ تمام اکاؤنٹس اکاؤنٹ کے زمرے کے مطابق مراعات اور مفت سروس چارجز سے بھرے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈائمنڈ اور پلاٹینم سیلری اکاؤنٹ ہولڈرز کو لاکر کرایہ (چھوٹے سائز) پر بالترتیب 25فیصداور 50فیصد رعایت ملے گی۔ دیگر رعایتوں کے علاوہ کھاتہ داروں کو اکاؤنٹ کے زمرے کے مطابق ہر سال 20 سے 40 چیک کے اوراق مفت ملیں گے۔
کارپوریٹ تنخواہ پیکیج کے فوائد حاصل کرنے کیلئے درکاراہلیت ؟
کارپوریٹس کیلئے اہلیت کے معیار میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں؛
کارپوریٹ کو ایک مفاہمتی یاداشت کرنا پڑے گی کہ وہ اپنے آن رول عملے کے کم از کم 50فیصد اکاؤنٹس کھولیں گے جن کے پاس کم از کم چھ ماہ کی تصدیق شدہ سروس ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 30 سے زائد ملازمین رکھنے والے کسی بھی کارپوریٹ کو اپنے عملے کے 50 فیصد اکاؤنٹس کھولنے ہوتے ہیں اور جس کارپوریٹ کے ملازمین کی تعداد 15 سے 30 کے درمیان ہوتی ہے، اسے اپنے ملازمین کے کم از کم 15 اکاؤنٹس کھولنے ہوتے ہیں۔15 سے کم ملازمین کی تعداد والے کارپوریٹ اہل نہیں ہیںاور وہ لوگ جو این پی اے(NPA) کے زمرے میں آتے ہیں وہ بھی اہل نہیں ہیں۔ایک کارپوریٹ کا بینک کے ساتھ کم از کم ایک سال کا بینکنگ تعلق ہونا چاہئے تاہمBBB اور اس سے اوپر کی درجہ بندی رکھنے والی کمپنیوں/کارپوریٹس کیلئے کوئی پابندی نہیں ہے۔
ملازمین کیلئے درکار اہلیت ؛
ان کے پاس پچھلے چھ مہینوں کی تنخواہ کا کریڈٹ ہونا چاہئے (تنخواہ کی پرچی اور آجر کی طرف سے نوکری کی تصدیق کا خط)۔
کارپوریٹس میں کام کرنے والے ملازمین کے ایسے موجودہ بچت/تنخواہ اکاؤنٹس جن کے پہلے سے بینک میں اکاؤنٹس ہیں، کو موجودہ سکیم سے اس پیکیج میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اگر مذکورہ ملازم NPA سٹیٹس کے ساتھ بنک کامقروض ہے۔
ایسے ملازمین کیلئے قرض کی سہولیات کا کیا ہوگا؟
جے اینڈ کے بینک کے پاس پہلے سے ہی اس زمرے کے ملازمین کیلئے ذاتی کھپت کے قرض کی سکیم(personal cunsumption load) موجود ہے۔ بینکنگ کے معروف اداروں کے مستقل ملازمین سکیم کے تحت نقد قرض حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف وہی ریگولر/مستقل ملازمین اہل ہوں گے جو جے اینڈ کے بینک میں اپنے سیلری اکاؤنٹس کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور/یا موجودہ سیلری اکاؤنٹس کو بینک میں شفٹ کریں گے جس میں کم از کم ایک تنخواہ اس اکاؤنٹ میں موصول ہوئی ہے۔
قرضہ کی مقدار ملازمین کی آمدنی سے منسلک ہے۔ یہ 30 ماہ کی مجموعی تنخواہ یا 25.00 لاکھ روپے ہے، جو بھی کم ہو۔ اور قرض کچھ شرائط کے ساتھ 120 اقساط میں قابل واپسی ہے۔
(اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی اپنی ہیں،نہ کہ اُس ادارے کی ،جس کیساتھ وہ کام کرتے ہیں۔ان آراء کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)