عارف شفیع وانی
فطرت اور اس کی تخلیقات کے ساتھ بے جا انسانی مداخلت تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔ چاہے وہ آبی ذخائر ہوں، جنگلات یا گلیشئر، قدرتی وسائل کا استحصال موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے اور انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
لال ہرن ،جسے کشمیری میں ہانگل کہتے ہیں ،جو کبھی پورے جموں و کشمیر میں پھیلی ہوا تھا،،کی آبادی میں کمی کیلئے اس کے نازک مسکن کی تباہی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔11سے 16 نوکوںکے ساتھ اپنے شاندارشاخ والے سینگوں کیلئے مشہور، ہانگل (cervus hanglu hanglu)یا کشمیری ہرن کبھی پہاڑوں میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا تھا۔ 20ویں صدی کے اوائل کے دوران ان کی تعداد تقریباً 3000 سے 5000 بتائی جاتی تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے تیار کردہ کشمیر کے ‘شکار نقشہ’ میں ہانگل کے پھیلائوکو 40 کلومیٹر کے دائرے میں دکھایا گیا ہے جو کشن گنگاکیچمنٹ میںکیرن سے لیکر لولاب وادی میں ڈورس،بانڈی پورہ، تلیل، بالہ تل، آڑو، ترال اور کشتواڑ تک پھیلا ہوا تھا۔ہانگل کی آبادی 1947 میںتقریباً
1000سے2000سے بتدریج کم ہو کرفی الحال 289 رہ گئی۔
اب ہانگل اپنی آخری گڑھ داچھی گام نیشنل پارک اور اس کے چند ملحقہ علاقوں میں زندہ ہے۔ داچھی گام، برین، نشاط، دارہ، کھمبر، کھریو،کھنموہ،
ترال، شکارگاہ، کھرم، سندھ اور اکہال میں 800 مربع کلومیٹر ہانگل کااب مسکن ہے۔
اب تک 2004، 2006، 2008، 2009، 2011، 2015، 2017، 2019، اور 2021 میں نوبار ہانگل کی سرشماری ہوئی ہے اور ماضی میں ہانگل کی آبادی کا تخمینہ بالترتیب 197، 153، 127، 175، 218، 183،214، 237 اور 261 لگایاگیا ہے۔حالیہ سر شماری سے پتہ چلتا ہے کہ ہانگل کی آبادی میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین سر شماری کے مطابق 289 ہانگل ہیں۔تعداد سے کہیں زیادہ ہانگل کی طویل مدتی بقا کیلئے نر و مادہ ہانگل کا تناسب زیادہ اہم ہے ۔
ہانگل کیلئے بڑے خطرات میں بچہ کشی کی صلاحیت، ساخت اور مسکن کی صحت کے حوالے سے آبادی کا کمزور ہونا شامل ہے۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اینڈ نیچرل ریسورسز (IUCN)کی ریڈ لسٹ، ریڈ لسٹ ڈیٹا، انڈین وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 1972 میں شیڈول اول انواع کے مطابق ہانگل ایک انتہائی خطرے سے نایاب جنگلی جانور ہے۔مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہانگل کشمیر کے بالائی علاقوں میں مویشیوں کے چرنے کی وجہ سے بشری دباؤ کی وجہ سے موسم گرما کے مسکنوں کا استعمال نہیں کر رہا ہے۔ یہ بات ہانگل کے سیٹلائٹ عکس بندی کے نتائج سے بھی سامنے آئی ہے۔
برسوں پہلے حکام نے سرکاری بھیڑوں کی افزائش کا فارم بھی داچھی گام نیشنل پارک سے منتقل کر دیا تھا کیونکہ بھیڑیں ہانگل کے چرنے کو متاثر کر رہی تھیں۔ اس کے باوجود داچھی گام نیشنل پارک میں ہانگل کے مسکن میں بے جا انسانی مداخلت ہے۔ پارک میں جنگلی سوروں کی موجودگی ہانگل کے مسکن کو پریشان کر رہی ہے۔ماہرین ہانگل کی حد کوپہاڑی سرسبروادیوں اور داچھی گام نیشنل پارک سے باہر راہداری کے علاقوں تک بڑھانے کیلئے اقدامات کی سفارش کر رہے ہیں لیکن وہاں انسانی مداخلت حد سے زیادہ ہے ۔کھریو اور کھنموہ میں سیمنٹ فیکٹریوں اور تعمیراتی کاموں کیلئے خام مال نکالنا ہانگل کو شدید پریشان کر رہا ہے۔ داچھی گام نیشنل پارک کے قریبی علاقوں میں ٹرکوں، مشینوں کی بھاری نقل و حرکت اور کان کنی سے مسئلہ مزید بڑھ گیا ہے۔
فطری طور ہانگل ایک شرمیلاجانور ہے اور عام طور پر غیرآبادعلاقوں کو پسند کرتا ہے۔ حالیہ سرشماری کے دوران 70 اور 83 کے ہانگلوںکے ریوڑ داچھی گام کے بالائی علاقوں میں دیکھے گئے۔ ہانگل کی آبادی کی باقاعدہ نگرانی سے اب تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگرچہ آبادی مستحکم ہے، لیکن نر و مادہ کے نامناسب تناسب، مسکنوںکے بکھرنے کی بڑھتی ہوئی شرح، غیر قانونی شکار، اور اس کے نتیجے میں اس کی تاریخی آبائی حدود میں کمی جیسے خدشات پائے گئے ۔
ہانگل کی کم بچہ کشی کی شرح اور آبادی کے استحکام سے وابستہ مسائل ہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ سے منسلک محکمہ جینیاتی متعلقہ مطالعات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے اور محکمہ نے اب مائٹوجینومک زاویہ کے ذریعے ارتقائی بصیرت کو سمجھنے کیلئے ہانگل کے مکمل جینوم ترتیب کا مطالعہ شروع کروایاہے۔جنوبی کشمیر کے ترال علاقے میں شکارگاہ میں ہانگل کنزرویشن بریڈنگ سینٹر قائم کیا گیا ہے۔
گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) اور سیٹلائٹ ٹیلی میٹری کا استعمال کرتے ہوئے ہانگل کی نقل و حرکت کے نمونوں کا مطالعہ کرنے کی اپنی کوشش میں شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کشمیر محکمہ برائے تحفظ ِ جنگلی حیات کے ساتھ مل کر سیٹلائٹ عکس بندی کا کام کر رہی ہے۔ یہ مطالعہ ہانگل کی نقل و حرکت سے منسلک ماحول، ہانگل کے موسمی گھریلو حدود، نقل و حرکت کے نمونوں اور ہجرت کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرنے اور ہجرت کے اہم سٹاپ اوور سائٹس، نقل و حرکت کی راہداریوںاور داچھی گام نیشنل پارک سے باہر ہانگل کی ہجرت میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی اور توثیق کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی،حکومت ہند کے ذریعے مالی اعانت سے چلنے والے پروجیکٹ کے تحت زرعی یونیورسٹی کشمیر کی طرف سے پانچ انفرادی ہانگلوں کو پکڑنے اور ان کی عکس بندی سے اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
پچھلے چار برسوں میں ہونے والی اس وسیع تحقیق کے نتائج نے داچھی گام نیشنل پارک سے شمال میں وانگت -ناراناگ راہداری جنوب میںترال اور شکار گاہ راہداری میںشمال میں سندھ فاریسٹ ڈویژن اور جنوب میں ترال ریزرو جنگلات کے علاقوں میں شناخت شدہ راہداریوں کے ذریعے ہانگل کی نقل و حرکت کا پتہ لگایا ہے ۔بالائی داچھی گام میں ہانگل کیلئے موسم گرما کے مثالی رہائش گاہوں کی دستیابی کے باوجود یہ پہاڑی چراگاہیں ہانگل کے ذریعہ ممکنہ طور پر مویشیوں کے چرنے کے نتیجہ میں انسانی دباؤ کی وجہ سے تلاش یا استعمال نہیں کی جا رہی تھیں۔ ہانگل کی اچھی آبادی کی پائیداری ایک صحت مند ماحولیاتی نظام کا اشارہ ہے۔ ہانگل کے تاریخی سلسلے کو بحال کرنے کیلئے مغربی ہمالیہ کے بڑے مناظر اور اس سے منسلک حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی موجودہ آبادی میں قابل عمل اضافہ ہو سکے۔نتائج کی بنیاد پرزرعی یونیورسٹی کشمیر اور محکمہ برائے تحفظ ِجنگلی حیات کے ماہرین نے ہانگل سے بالائی داچھی گام کے پہاڑی مرغزاروں اور داچھی گام نیشنل پارک سے باہر ممکنہ راہداری کے علاقوں تک توسیع کیلئے کئی اقدامات اور انتظامی مداخلت کی سفارش کی ہے۔
ہمارے پاس اس کی مثال موجود ہے کہ ہندوستان میں چیتے کیسے معدوم ہو گئے۔ ہندوستان میں آخری ایشیائی چیتا 1947 میں کوحال کی چھتیس گڑھ ریاست کے کوریا ضلع میں مر گیا۔ 1952 میں اس نسل کے معدوم ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ حکومت ہند کے پروجیکٹ چیتا کے تحت، تقریباً سات دہائیوں کے بعد پچھلے سال چیتا کو دوبارہ متعارف کرایا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال نمیبیا سے لائے گئے آٹھ چیتوں کو کونو نیشنل پارک میں آزادچھوڑدیا۔ نمیبیا اور جنوبی افریقہ سے 25 چیتوں کو پارک میں دوبارہ متعارف کرایا جائے گا، جو کبھی چیتوں کا گڑھ سمجھی جاتی تھی۔
تحفظ کاری کے پائیدار و مستقل اقدامات کی عدم موجودگی میں چیتا کی طرح ہانگل کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ ابھی تک ہانگل کی صورت حال چیتوں سے کہیں بہتر ہے۔ یونین ٹیریٹری جانور ہونے کے ناطے حکومت اور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہانگل کے مسکن کے تحفظ میں مدد کریں۔ ہانگل کی باقی ماندہ آبادی کو بچانے کیلئے جنگلی حیات کے عالمی ماہرین سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہانگل کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہانگل کے مسکن کے قریب رہنے والے لوگوں کو اس خطرے سے دوچار جانور کی اہمیت سے آگاہ کرنے کیلئے آگاہی پروگرام شروع کئے جائیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ہانگل کی باقی ماندہ آبادی کو بچانے کیلئے ہاتھ ملانے کی ضرورت ہے۔
مضمون نگار انگریزی روزنامہ ’’گریٹرکشمیر‘‘کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں۔