نثار گنائی
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو ان گنت نعمتوں،فضیلتوں اور برکتوں سے نوازا ہے۔ جن کا ہم شمار نہیں کر سکتے اور لمحہ بہ لمحہ ان نعمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ بارش قدرت کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ رحمت باراں کے نتیجے میں سخت گرمی کے موسم کے بعد انسان، حیوان اور شجر وحجر راحت کی سانس لینے لگتے ہیں۔ تخلیق کائنات میں انسان بہت خوش قسمت ہیں جسے گرمی، سردی، بہار اور خزاں کے علاوہ برسات کے رنگین موسم سے بھی نوازا ہے۔ موسم برسات میں بارش کے پانی سے انسان، چرند، پرند اور زمین پر بسنے والے ہزاروں کی تعداد میں حیوانات زندگی پاتے ہیں۔ لیکن اگر مون سون کے موسم میں بارشیں معمول سے زیادہ ہوں تو یہ سیلاب، طوفان اور تباہ کاریوں کا سبب بنتی ہیں جو زندگی کی سرگرمیوں میں رکاوٹ کاباعث بنتی ہیں۔ برسات کے موسم میں کہیں زیادہ تو کہیں کم بارش ہوتی ہے۔ کہیں کہیں اتنی بارش ہوتی ہے کہ سیلاب آجاتا ہے۔ندیوں کا پانی سطح سے اوپر بہنے لگتا ہے۔ بعد ازاں یہ پانی آبادی کا رْخ کرلیتا ہے۔ پْل ٹوٹ جاتے ہیں۔ سیلاب میں ہزاروں لوگ بہہ جاتے ہیں۔برسات کے موسم میں کسانوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ندی نالے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ گاؤں اور شہر کی گلیوں میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ گندہ پانی گھروں میں داخل ہونے لگتا ہے۔ گڈھوں میں پانی جمع ہونے سے مچھرپیدا ہوتے ہیں۔ مچھروں کے وجہ سے ملیریا جیسے خطرناک بیماری ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ ہر طرف کیچڑ گندگی پھیلی رہتی ہے۔ جہاں پر پکی سڑکیں نہیں ہیں وہاں لوگوں کو آنے جانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ آنا جانا بند ہو جاتا ہے۔ بچے اسکول نہیں جا پاتے ہیں۔
جموں و کشمیر کی اگر بات کی جائے تو یہاں ہر سال مون سون کے موسم میں تمام ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ بہت تیز ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے ہر سال جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ خاص کر کے سر حدی ضلع پونچھ، جو ہر وقت دو ملکوں کے مابین کشیدگی کی وجہ سے خطرے کی زد میں تو رہتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہر سال سیلاب کی زد میں بھی آجاتا ہے۔ یہاں کی تمام ندی نالوں کا پانی بڑھ جاتا ہے۔ جو لوگ ندی نالوں کے نزدیک رہتے ہیں انہیں مونسون کے موسم میں اپنی رہائشی جگہ پر رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ حالیہ بھاری بارشوں کی وجہ سے پونچھ میں کافی نقصان ہوا۔ سڑکیں بہہ گئی، پْل ٹوٹ گئے، تمام تر رابطہ سڑکوں اور پلوں سے راستہ منقطع ہو گیا ہے۔ چند روز قبل تحصیل منڈی کے بلاک ساتھرا میں لوہے کاایک رابطہ پْل پانی کے تیز بہاؤ سے بہہ گیا۔ اب وہاں کے لوگوں کو آنے جانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مقامی باشندا اجاز احمد کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے ستھرا کا ایک رابطہ پْل بہہ گیا ہے جو بلاک ساتھرا کو پانچ گاؤں سے جوڑتا تھا۔اب عوام کو ساتھرا پہنچنے کے لئے یا تو دریا کے بی?چ سے گزرنا پڑتا ہے یا پھر بائلہ منڈی سے گھوم کر آنا پڑتا ہے۔مقامی عوام روز بروز انتظامیہ سے مانگ کر رہی ہے مگر ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ہے۔ خطہ پیر پنجال کے سرحدی ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والی و شعبہ سائنس سے وابستہ دوِیا سسن کا کہنا ہے کہ، جموں وکشمیر قدرتی نظاروں کا ایک ایسا حسین عکس ہے جو ہر طرح کی قدرتی سہولیات سے فیضیاب ہے۔موسم سرما ہو یا گرما، بہار ہو یا خزاں ہر موسم اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے برف پوش پہاڑ، سرسبز و شاداب وادیاں نباتات اور حیوانات سے مالامال جنگلات قدرت کی کاریگری کی نشاندھی کرتے ہیں۔
مون سون کا موسم آتے ہی تالابوں، ندی نالوں میں پانی بھر جاتا ہے، جو جنگلی جانوروں کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے، کیونکہ گرمی کے موسم میں پانی کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے جس سے مویشیوں اور کسانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن برسات کا موسم آتے ہی پانی کی کمی پوری ہوجاتی ہے۔ کسانوں کے لیے یہ موسم بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں سینچائی کی سہولت بہت کم ہے۔ برسات کے موسم میں بارش ہونے سے چاروں طرف ہریالی چھا جاتی ہے۔ بنجر زمین پر ہری ہری گھاس دکھائی دینے لگتی ہے۔برسات کے موسم میں پیدا ہونے والے پودوں، پھولوں اور فصلوں کی نشوونما کا منظر بہت خوبصورت ہوتا ہے۔مون سون کا یہ موسم خصوصاً پونچھ کے علاقوں میں قابل دید ہوتا ہے۔اس دوران ہوا معمولی سرد ہوتی ہے اور دْھند کی سفیدی میں بارشیں نہایت خوبصورت ہوتی ہیں جسے ساون کی جھڑی بھی کہا جاتا ہے۔
وہیں تحصیل منڈی کے گاؤں اڑائی کا سکونتی امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مون سون کے موسم کی بارشیں ہر جاندار کے لئے فائدہ مند اور باعث رحمت ہے لیکن یہی بارشیں ضرورت سے زیادہ ہونے پر زحمت بن جاتی ہے۔ پسی پڑنے سے کئی رہائشی مکان خاکستر ہو جاتے ہیں اور ہزاروں جانیں برزخی زندگی کا رخ کر لیتی ہیں۔ سڑکیں اور پیدل چلنے کے راستے بالکل خراب ہو جاتے ہیں۔ جس سے اسکولی بچوں کا اسکول نہ پہنچنے سے ان کی پڑھائی پر منفی اثرات رونما ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ گاؤں اڑائی کو راجپورہ منڈی سے جوڑنے والی رابطہ سڑک جس کا کام کئی سال پہلے شروع ہوا تھا لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا ہے، یہ سڑک دریا کے بالکل قریب سے گزرتی ہے۔ہر سال برسات کے موسم میں دریا میں طغیانی آنے سے سڑک کا کچھ حصہ بہہ جاتا ہے۔ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے نہ تو سڑکوں کے دائیں بائیں پکے ڈنگے/باندھ کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی پانی کی نکاسی کے لئے نالی بنائی گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں اقتدار میں آئیں ووٹ لینے سے پہلے سب نے یہی دعوے کیے کہ اقتدار میں اتے ہی سڑک، پانی، بجلی اور نیٹ ورک کنیکٹیوٹی جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے گا مگر آج تک وہ وعدہ وفا نہیں کر پائے۔
جہاں سرکار وطن ِ عزیز کو ڈیجیٹل انڈیا بنانے کے بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے وہیں جموں وکشمیر جسکو ہندوستان کا تاج و جنت بے نظیر بھی کہا جاتا ہے، کے اکثر گاؤں میں پانی کی قلت اور بجلی کی عدم دستیابی سے عوام دوچار ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ محکمہ بجلی کی نااہلی کی وجہ سے بجلی کی تار ہرے درختوں پر لٹکائی ہوتی ہے۔برسات کے موسم میں بارش یا تیز آندھی آنے پر درختوں کی ٹہنیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور بجلی کی تار زمین پر گِر جاتی ہیں۔ جسے جانی حادثہ ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے اور کئی کئی دنوں تک بجلی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ امتیاز احمد اور ان کے پڑوسی عمران حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے گھر تک بجلی پہنچانے میں لوہے کے پل کے بجائے ہرے پیڑ کے ساتھ بجلی کی تار کو لٹکایا گیا ہے جس سے برسات کے موسم میں کسی بھی وقت کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات اکثر محکمہ بجلی کے ملازمین کے نوٹس میں لائی گئی مگر ابھی تک بجلی کی لائن کی حالت جوں کی توں ہے۔ ایسی صورت حال کے پیشِ نظر مقامی انتظامیہ کو بہتر انتظامات کرنے چاہیے تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رابطہ۔منڈی، پونچھ
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)