سید سہیل گیلانی
معلم اللہ کی مخصوص نعمتوں میں سے ایک خاص اور عظیم نعمت ہے۔جس طرح سے ظاہری طور پر ہر ایک چیز کی تعمیر کے لئے مختلف قسم کے اشیاء اور اسباب کا ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح سے انسان کے ، اخلاق ، کردار اور اچھی قوم کی بنیاد کیلئے استاد کی رہبری اور رہنماء کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ انسان کی اخلاقی اور شخصیت سازی کا تعلق ہی معلم کی رہبری کے ساتھ ہے۔ استاد ہمارے قوم کا ایک عظیم سرمایہ ہے جس کو خود اللہ تعالیٰ نے عزت کا مقام عطا کیا ہے۔ اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السلام کا دنیا میں بطورِ خلیفہ بھیجنے کا اعلان کیا، تو علم سے ہی کیا ( سورۃالبقرہ، 31)یعنی انسان کو اسماء کا علم دیا اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐاور خلائق کے درمیان کے تعلق کا اظہار بھی علم سے ہی کیا ( سورۃ العلق ،1)۔ یعنی علم کا رشتہ ابتدا سے آدم علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ لہٰذا علم اور معلم ، دونوں کے ساتھ ہمیشہ ایک مضبوط تعلق، اور جذبہ ہونا چاہئے۔کائنات کا سب سے عظیم معلم اور رہبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ اللہ پاک نے انہیں بطور معلم بنا کر بھیجا ہے۔ وہ ایک ایسے معلم ہیں جنکا دنیاوی طور پر نہ کوئی استاد رہا ہے اور نہ ہی اْنہوںنے کسی مدرسے میں داخلہ لے کر پڑھائی حاصل کی ہے، بلکہ اللہ کے عطا کردہ علم کی برکت سے اْنہوںنے عالم انسانیت کو سارے علوم سکھائے اور پڑھایئے۔ سیرت سرور کائناتؐ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں انکا خلائق کے ساتھ پیار ، محبت ، امن ، انسانیت اور نرمی کے رشتے کی دلیل ملتی ہے۔ لہٰذا معلم ( استاد ) اور متعلم ( طالب علم ) کے درمیان کے رشتے کے بارے میں پڑھنے اور اس رشتے کو بالکل اسی انداز میں قائم رکھنے کے لیے ہمیں سیرت نبویؐ کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔اساتذہ کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا کہ استاد کی ہم نشینی انبیاء علیہم السلام کی ہم نشینی ہے۔ اور دوسری جگہ فرمایا کہ استاد کے چہرے کو دیکھنا بالکل اسی طرح عبادت ہے جس طرح کعبہ کو دیکھنا عبادت ہے۔ ان احادیث سے معلم کی عزت، مقام اور انکی اہمیت کا صاف طور پر پتہ چلتا ہے۔ چونکہ معلم اور متعلم کا تعلق علم کے ساتھ ہے۔ اور علم حاصل کرنا فرض اور ایک عظیم ترین عمل ہے۔ علم حاصل کرنا اور اْسکے بعد معلم کے طور پر اس کو دوسروں تک پہنچانا دونوں فضیلت کے حامل ہیں۔ معلم کا ایک عظیم مرتبہ اور مقام ہے اور انکو وہ مقام اور مرتبہ ضرور ملنا چاہیے جسکے وہ مستحق ہیں۔ اور ایک اہم مسئلہ یہ کہ معلم کی عزت کسی خاص وقت یا کسی خاص دن تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر وقت اور ہمیشہ متعلم کیلئے اہم اور لازم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے اساتذہ صاحبان کی عزت و اکرام کریں اور دوسری طرف سے اساتذہ صاحبان کو بھی چاہیے کہ ایمانداری کا مظاہرہ کرکے اپنا پیشہ اصولوں پر قائم رکھنے کی کوشش کریں۔اللہ سے دعا رہے کہ ہمارے اساتذہ صاحبان کی حفاظت کرے اور ہمیں انکی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )۔
(مضمون نگارکاتعلق راجپورہ ہندوارہ کشمیر سے ہے اوربی ایس سی کے طالب علم ہیں۔)
ای میل۔ [email protected]