شیخ ولی محمد
قومی تعلیمی پالیسی 2020کا نفاد پورے ملک میں جاری ہے ۔ اس پایسی کے چار اہم حصے ہیں۔ پہلا حصہ سکولی تعلیم ، دوسرا حصہ اعلیٰ تعلیم ، تیسرا حصہ توجہ کے دیگر اہم شعبے اور چوتھا حصہ عمل درآمد کی حکمت عملی پر مشتمل ہے۔ سکولی تعلیم کے تحت جہاں بہت سارے پرانے اور روایتی طریقوں میں بدلاو ٔلا نے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اسکولی تعلیم میں رائج تجز یاتی عمل میں بد لاؤ لا کر توجہ تکمیلی اور امتحانوں میں رٹنے کی روایت سے ہٹاکر تشکیلی طریقہ کار پر مر کوز ہوگی جو کہ طلبہ کی صلاحیت پر مبنی ہوتا ہے اور مزید سیکھنے کی طرف راغب کرتا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں پالیسی ڈاکیومنٹ( Document)کے شق نمبر4.35 ،4.34 اور4.40میں وضاحت کی گئی ہے ۔4.34میں بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے سکولی نظام میں رائج تجزیاتی عمل میں بدلاؤ لا کر توجہ سمیٹو اور ابتدائی ٹیسٹوں میں رٹنے کی روایت ہٹاکرتشکیلی (Formative) طریقہ کار پر مرکوز ہوگی جو صلاحیت پر مبنی ہوتا ہے اور طلبہ میں سیکھنے کی صلاحیت کو فروغ دیتا ہے ۔ اس فارمییٹو (Formative)طریقہ کار سے اونچے درجے کی صلاحیتوں مثلاً تجزیہ کاری ، تنقیدی فکر اور نظریات کی وضاحت کا پتہ چلتا ہے ۔ تجزیہ (Assessment & Evaluation )کا بنیادی مقصد طلباء کو سکھانا ہوگا۔ اس سے اساتذہ ، طلباء اور پورے سکولی نظام کو فائدہ ہوگا ۔ اسی طرح 4.35میں درج ہے کہ سکول میں زیر تعلیم طلباء کی پیش رفت کے بارے میں پروگرس کارڈ (Progress Card)،جو طلباء کے بارے میں والدین کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں ان کو ریاستیں ، مرکز کے زیر انتظام علاقے از سر نو تر تیب دیں گے ۔ پروگریس کا رڈڈ ہمہ گیر نوعیت کا ہوگا یعنی 360ڈگری کثیر جہتی رپورٹ ہوگی جو ہر طالب علم کی مکمل تفصیل پیش کرے گا ۔ اس میں ہر طالب علم کی خصوصیات ، اس کی لکھائی ، پڑھائی ، سمجھنے اور پوچھنے کی صلاحیت ، تاثیر اور سائیکو موٹر شعبوں کا ذکر ہوگا ۔ کارڈمیں پروجیکٹ پر مبنی اور سوالات پر مبنی علم کے حصول ، کوئز ، رول پلے ، اجتماعی کام ، شخصیت کے بارے میں معلومات کے علاوہ استاد کا تجزیہ بھی شامل ہوگا۔
قومی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں جموں وکشمیر یوٹی میں تعلیمی میدان میں سرگرم عمل پالیسی ساز ادارہ سٹیٹ کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگس( SCERT)نے رواں تعلیمی سیشن کے آغاز میں ہی اکیڈیمک کلینڈر وسلیبس جاری کیا جو تمام تعلیمی اداروں کے لئے مکمل رہنما خطوط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ا کیڈیمک کلینڈر کے مطابق بچے کو جانچنے اورپرکھنے کا طریقہ کا ربدل گیا۔ ابStudents Assessment and Evauation Scheme کے تین جز ہیں ۔ پہلا جُز تشکیلی تشخیص (Formative Assessment)جو School Basedہوگا،کے 6ٹیسٹس یا سیشنل(Sessionals) ہوں گے اور ہر ٹیسٹ کے 5نمبرات ہوں۔ اس طرح ہر سبجیکٹ میں FAکے 30نمبرات ہوں گے ۔ SCERTنے 19اگست 2023کو اس بارے میں تفصیلی طور پر ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے ہدایات جاری کیے کہ فارمیٹو اسسمنٹ (FA) سیریز کب ، کس مہینے کے کس ہفتے میں لیا جائے ۔ سیلبس کا دوسرا حصہ ہم نصابی سرگرمیوں پر مشتمل ہوگا جس کے لئے 30نمبرات مختص کیے گئے ہیں۔ جن میں کھیل کود /یوگا کیلئے 5نمبرات ، مباحثے، کوئز ، سیمنار کے لئے 5نمبرات ، صحت وصفائی کے 5نمبرات ، مارننگ اسمبلی کے 2نمبرات ، حاضری کے 5نمبرات ، ڈسپلن کے 2 کے نمبرات ، والدین کی شرکت کے 2نمبرات ، اخلاقی تعلیم کے 2نمبرات اور چال و چلن کے لئے 2نمبرات شامل ہیں ۔ جانچ اور پر کھ کا تیسرا جز مجموعی تشخیص(Summative Assessment)40نمبرات پر مشتمل ہے جو تعلیمی سیشن کے اختتام پر ( مارچ2024کے پہلے ہفتے میں ) لیا جائے گا ۔ قومی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں امتحانات کے طریقہ کا ر میں تبدیلی لا کر یہ سفارشات کی گئی کہ دوسری جماعت تک کے بچوںکو تحریری امتحانات( Written Tests)سے مستثنیٰ رکھاجائے ۔ SCERTنے اس بارے میں تعلیمی اداروں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے تفصیلی طور پر بتا دیا ہے کہ کلاس دوم تک کے بچوں کی جانچ او رپرکھ تنائو سے پاک( Stress Free) ماحول میں کی جائے ۔ پری پرائمیری سے لیکر دوسری جماعت تک کے بچوں کیلئے School Based Assessesment ہوگاجس میں استاد مختلف ٹولز جیسےPortfolio،Checklists ،Ancedotal Records،interaction with teacher،peers،family and friendsوغیرہ کا استعمال کرسکتا ہے ۔ تیسری جماعت کے لئے تجزیہ کا طریقہ کار NIPUN Guidelinesکے مطابق ہوگا۔چوتھی جماعت سے لیکر نویں جماعت تک کے بچوں کی جانچ اور پرکھ کیلئے Formative Assessmentاور Summative Assessmentاستعمال میں لائے جائیں گے۔ Formative Assessment جو سکول بیسڈ ہے ،کیلئے یہ بھی بتلادیا گیا ہے کہ اس میں روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر استاد مختلف ٹولز جیسے Debates،Projects، Role Play Investigations Experiments ،Presentations،Portfolios،Journals وغیرہ کا استعمال کرسکتا ہے۔جبکہSummative Assessmentکیلئے چھوٹے ،طویل اورMultiple Choice Questionsکا سوالنامہ ہوگا۔ اب روایتی مارکس کارڈکی جگہ Holistic Progress Cardہوگا جس میں بچے کی ہمہ جہت کارکردگی درج کی جائے گی ۔چنانچہNCERTکاتیار کردہ Foundatinal StageاورPreparatory Stageکیلئے Holistic Progress Cardاس وقت SCERTکی ویب سائٹ پر تعلیمی اداروں کے لئے دستیاب رکھا گیا ہے ۔
اس لمبی چوڑی محنت اور کاوش کے باوجود اکثر وبیشتر تعلیمی ادارے پرانے اور روایتی طریقہ کا ر پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔سیشن کے آغاز ہی سےU1، U2، U3عملانے کے بعد اب بچوں سے T1کی طرز پر امتحان لیا جارہا ہے ۔ SCERTنے اپنی ویب سائٹ پر ہر کلاس کیلئے سیلبس کا Break -Up دیا ہے لیکن پر ائیوٹ تعلیمی اداروں نے اسے نظرانداز کر کے اپنی سیلبس کا پیاں بچوں میں تقسیم کی اور اسی کے مطابق سال بھر تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ۔ حالانکہ اب چھٹی جماعت سے تمام تعلیمی اداروں میں بورڈ کی نصابی کتابیں رائج ہیں اور اگلے سیشن سے باقی کلاسوں کے لئے سیلبس کو یکسان بنانے کیلئے کوششیں جاری ہے ۔بچے امتحانات کی تیاری کے لئے پرانا اور فرسودہ ’’ رٹاکلچر‘‘Rote Learningاپنا رہے ہیں ۔اس روایتی امتحانی سسٹم سے بچے کی ہمہ جہت ترقی کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا ۔ سال بھر بچوں کے ہاتھ میں درسی کتاب کے ساتھ سیلبس کی کاپی رہتی ہے ۔اساتذہ سیلبس کاپی کو ’’ وحی الہٰی ‘‘ سمجھ کر اسی کے مطابق چند ابوا ب اور مضامین اور کچھ مشقی سوالات بچوں کو پڑ ھاتے ہیں۔بچے روایتی نوٹس کی مدد سے رٹالگاتے ہیں ۔ سیلبس اور درسی کتاب سے باہر کسی بھی نقطہ یا عنوان کی طرف دھیان دینا فضول قرار پاتا ہے ۔ Meaningfull Learning / Concept based Education تصوراتی تعلیم کے بجائےSyllabus Oriented Education کو اپنا یا جاتا ہے ۔ نئی تعلیمی پالسی کے مطابق جہاں اسکولوں میں پڑھائی کیلئے Stress Freeماحول پیدا کیا جائے وہاں امتحانی نظام اور تحزیاتی عمل کو آسان بنا یا جائے اور بچوں کو امتحانی دباؤ سے دور رکھا جائے ۔ پرانے سسٹم میں اساتذہ سے لے کر طلبہ جو چیز انکا محور اور مزکز بن چکی ہے وہ صرف امتحان ہے ۔ پورے تعلیمی سال کے دوران طلبہ پر امتحانات کے مہیب سائے منڈلاتے رہتے ہیں ۔ جسکی وجہ سے وہ خوف و ڈر کے شکار ہوتے ہیں ۔ روایتی سسٹم میں امتحان ہال میں پہنچتے ہی بچے کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں اور جب سوالنامے تقسیم ہونے لگتے جسم میں ایک سنسناہٹ سی دوڑنے لگتی ہے ۔ نمبر گیم کی آڑ میں والدین اور اساتذہ اندھا دھند بھاگتے نظر آتے ہیں ۔ملک کی دیگر ریاستوں اور یوٹیزکے ساتھ وادی کشمیر میں بھی طلباء پڑھائی اور امتحانات کی وجہ سے ذہنی دباؤ کے شکار ہورہے ہیں ۔
اس تعلق سے نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگسNCERT کا ایک سروے رپورٹ سامنے آیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق وادی کے اگرچہ عام دنوں میں 10فیصد طلباء پڑھائی کی وجہ سے ذہنی تناو ٔ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن امتحانات کی وجہ سے30فیصد طلباء و طالبات اس بیماری کے شکار ہو جاتے ہیں ۔ ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے والے اکثر یت لڑکیوں کی ہوتی ہے ۔NCERT نے اس سروے میں انکشاف کیا گیاہے کہ چھٹی سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں میں ذہنی دباؤ لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ۔ سروے میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے تقریباً 2لاکھ لڑکیوں جبکہ اتنی ہی تعداد میں لڑکوں کو لیا گیا ہے ۔ جس دوران 12.25فیصد لڑکیوںکو پڑھائی اور امتحانات کی وجہ سے ذہنی دباو اور بے چینی کا شکار پا یا گیا وہیں لڑکوں کی یہ تعداد 9.98فیصد رہی جو کہ ذہنی دباؤ سے جوج رہے تھے۔ ایسے میں ماہرین نفسیات کا مانناہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ طلباء پڑھائی اور امتحانات کے باعث ذہنی دباؤ کے شکار ہو جاتے ہیں ۔
ماہرین طب کا خیال ہے کہ امتحانات کے دباؤ کی وجہ سے طالب علم جن بیماریوں اور برے عادات کے شکار ہوجاتے ہیں ان میں دل کی دھڑکن تیز ہونا، سردرد ، معدہ کی خرابی ، منہ کا خشک ہونا ، دست ، نیند میں خلل ، خوف و ڈر محسوس ہونا ، اپنے آپ کو بے یار و مدد گارمحسوس کرنا ، اپنے ناخن کاٹنا ، نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنا ، بار بار پانی پینا ، یا کھا نا وغیرہ شامل ہیں ۔اس پرانے اور بے مقصد سٹم کی وجہ سے تعلیمی نظام امتحانی بوجھ تلے دب چکا ہے ۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اختر اعی نوعیت کی تجزیاتی مشق کو متعارف کیا جائے ورنہ پورا تعلیمی نظام4-3گھنٹوں کا غلام بن چکا ہے ۔
اب جبکہ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے اس پورے سسٹم کو بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ تو اس کوشش کو کامیاب بنانے کے لئے ہر ایک کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے لیکن اسے زمین پر اُتارنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ تعلیمی سیکٹر میں پرائیوٹ سکولوں کا ایک اہم رول ہے۔ بلا شبہ اس سیکٹر میں قابل ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ قلیل معاوضہ پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں ۔ تاہم ان کا فرض بنتا ہے کہ نئے تعلیمی مشن کو پانے تکمیل تک پہنچا نے میں اپنا رول ادا کریں ۔ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں تعلیمی نظام سے متعلق تازہ اپ ڈیٹس کے لئے NCERT، SCERT، BOSE ، DSEکی ویب سائٹس کے ساتھ لگاتار اپنا رابطہ بنا ئے رکھیں ۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)