سیّد انیس الحق،پونچھ
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر پسماندہ طبقات مختلف مسائل کا سامنا کر رہے ہیں وہیں سب سے زیادہ جسمانی ناخیز افرادیعنی دیویانگ اپنی معذوری کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل کاسامنا کررہے ہیں۔یہ بات بھی عیاں ہے کہ مختلف ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی دیویانگوں کو لیکر بہت سارے قواعد و ضوابطبنائے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کی دیکھ ریکھ کے لئے محکمہ سماجی بہبود قائم کیا گیاہے اورجسمانی ناخیز افراد کیلئے کئی ساری فلاحی اسکیمیں بنائی گئی ہیں۔ جن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی طرح ہر سال ۳ دسمبر کو وطن عزیز میں معذوروں کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جہاں جسمانی ناخیز افراد کیلئے استعمال ہونے والے بڑے بڑے اخراجات دکھائے جاتے ہیں۔ با وجود ان سب کے ملک میں اس وقت بھی معذوروں کے مسائل انتہائی گھمبیر اور توجہ طلب ہیں۔ وہیں مثال کیلئے قارئین کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ یو نین ٹیریٹری جموں و کشمیر کے معذوروں کے مسائل اور درپیش چیلنج سے رو بروح کرواتا ہوں۔ایک رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں جسمانی طور پر کمزور افراد کی تعداد 3لاکھ 62 ہزار ہے۔ جوبا ضابطہ طور پر محکمہ سماجی بہبود میں رجسٹرڈ ہیں۔ جبکہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر میں معذور افراد سے متعلق مرکزی قانون 2016کو 2021میں لاگو کیا گیا ہے۔ تاہم اس قانون کے آنے سے جموں و کشمیر میں معذور افراد کی تعداد مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ اس قانون کے مطابق 21جسمانی کمیوں کے حامل افراد اس زمرے میں شامل ہونگے۔جبکہ پہلے جموں و کشمیر میں معذوروں کیلئے 1989میں بنائے ایک قانون کے مطابق صرف 7جسمانی کمیوں والے حضرات کو ہی اس زمرے میں شامل کیا جاتا تھا۔لیکن اب اس زمرے کی تعداد بڑھ گئی ہے جس میں مختلف بیماریوں یا کمیوں والے حضرات کو بھی معذور ی کے زمرے میں لایا جائے گا۔جیسے قوت بصارت سے محرومی، قوت بصارت میں کمی، بہرا پن، پیروں کا ٹیرھا ہونا، ذہنی صلاحیت میں کمی، نفسیاتی و نسو کی بیماریاں، یاداشت میں کمی کے علاوہ تیزاب کے حملوں سے متاثرین بھی اس زمرے میں آتی ہیں۔
ان دنوں معذور افراد جہاں غربت،بے روزگاری، انپڑتا، مہنگائی کے ہاتھوں مشکلات سے دوچار ہیں وہیں جموں و کشمیر میں معذور افراد کی مشکلات اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور زیادہ ہی بڑھتی جا رہی ہیں۔ انہیں محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے معذوروں کیلئے ماہانہ دی جانے والی پنشن کیلئے دوبارہ سے رجسٹریشن کروانے کیلئے کہا گیا جس کو لیکر معذور افراد کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں اس کے لئے کاغذات بنانے اور دیگر پیپردرست کرانے کے لئے مختلف دفاتر کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں اور طویل قطاروں میں گھنٹوں لگنا پڑ رہا ہے جو ان کے لئے کسی عزاب سے کم نہیں ہے۔اس سلسلہ میں معذور حضرات کی کئی تنظیمیں سراپا احتجاج کر حکومت اور انتظامہ تک اپنی آواز پہنچارہی ہیں کہ آخران کے ساتھ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟اسی سلسلہ میں گزشتہ دنوں جموں کے اکھنور میں آل جموں و کشمیر ڈس ایبیل ویلفیئر ٹرسٹ کے بینر تلے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔جہاں مظاہرین نے دوبارہ رجسٹریشن کے فیصلے پر اپنی مایوسی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے کئی دستاویزات دوبارہ جمع کرانے کے لیے کہنے کے بعد انہیں ایک دفتر سے دوسرے دفتر میں جانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے عمر کے سرٹیفکیٹ کے لیے میڈیکل آفیسر سے تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے اور درجہ اول مجسٹریٹ سے تصدیق شدہ حلف نامہ نے ہمارے لیے بڑی تکلیف پیدا کی ہے۔اس احتجاج کی قیادت کر رہے سشیل کمار جو خود ایک معذور ہیں نے کہا کہ”مستحقین کے لیے جس چیز نے مسائل کو بڑھا دیا ہے وہ معذور افراد اور عمر رسیدہ لوگوں کو مختلف دفاتر کی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا اہم ہے۔ایسا کر کے انتظامیہ نے ہمارے لیے ایک مسئلہ پیدا کر دیا ہے کیونکہ ہم میں سے کچھ کو دور دراز علاقوں سے سفر کرنا پڑتا ہے اور اس عمل میں معذور اور عمر رسیدہ افراد کے لیے پریشانیاں آتی ہیں۔“ انہوں نے یو ٹی انتظامیہ پر سوال اٹھایا کہ اگر یہ معذور اور عمر رسیدہ افراد اس قابل ہیں کہ وہ مختلف دفاتر سے بار بار یہ دستاویزات حاصل کر سکیں تو پھر انہیں پنشن کی کیا ضرورت تھی؟انہوں نے اس قدم کو معذوروں، عمر رسیدہ اور بے سہارا کے ساتھ انتظامیہ کا ظالمانہ مذاق قرار دیا۔
سشیل کمار نے کہا کہ یہ پنشن ہزاروں معذوروں،بے سہارا اور عمر رسیدہ لوگوں کی کفالت ہے جس کیلئے زیادہ تر افرادمتعلقہ افسران سے مطلوبہ معذوری سرٹیفکیٹ، حلف نامے، آدھار کی تفصیلات، عمر اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1000 روپے کی ماہانہ امداد بہت کم ہے اور اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ہر دستاویز آدھار کارڈ سے منسلک ہے پھر ڈومیسائل، ووٹر کارڈ یا بجلی کا بل، معذوری سرٹیفکیٹ، یو ڈی آئی ڈی کارڈ، بینک اکاونٹ اور عمر کے ثبوت کی کیا ضرورت ہے؟سشیل کمار نے کہا کہ ہم نے ان میں سے بہت سے دستاویزات پہلے بھی جمع کرائے ہیں اور زیادہ تر ڈیٹا پہلے ہی محکمہ کے پاس موجود ہے۔ اس کے باوجود تقریباً 70 فیصد معذور افراد کی پنشن روک دی گئی ہے جن کی فروری سے دوبارہ رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم اپنے تمام دستاویزات کو دوبارہ تصدیق کے لیے آن لائن کر رہے ہیں تو محکمہ بہت سے غیر ضروری اعتراضات کر رہا ہے۔انہوں نے حکومت سے تمام روکی ہوئی پنشن شروع کرنے اور اس عمل کو آسان بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں فرید ملک جو پیر پنجال عوامی ڈیولپمنٹ فرنٹ کے بانی اور چیئرمین بھی ہیں،خود بھی جسمانی کمزور ہونے کے ناطے معذوروں کے مسائل کو وقتا فواقتااُجاگر کرتے رہتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلہ میں کئی اعلیٰ حکام سے بھی مل چکے ہیں۔پونچھ ضلع کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کو آسان بنانے کیلئے کچھ جگہوں پر کیمپ کروائے ہیں لیکن وہ بھی مخصوص جگہوں پر منعقدہوئے ہیں۔ باقی اضلاع میں معدزوروں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے انتظامیہ سے اس عمل کو آسان بنانے کی اپیل کی کیونکہ معذور حضرات ایک تو پہلے ہی معذور ہیں پھر ان کو اس طرح ہراساں کرنا واقعی ہی کسی مصیبت سے کم نہیں۔
اس سلسلہ میں سماجی کارکن اور صحافی ریاض ملک نے بتایا کہ اس میں سب سے بڑی پریشانی ان معذور لوگوں کیلئے ہیں جن کے آن لائین کرنے کیلئے انگوٹھے، پاؤں کی انگلیاں یا آنکھ وغیرہ کام ہی نہیں کرتیں ان کے کاغذات آن لائین ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ان کا مزیدکہنا تھا کہ ایسے بھی کچھ معاملات آئے ہیں جنہیں اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پونچھ ضلع میں اکثریت کے کارڈ بن کر مکمل ہو گئے ہیں مگر جن کا آن لائین نہیں ہو سکا اس کی تو پنشن ہی بند ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں سوشل ویلفئر آفیسر منڈی تحصیل محمد اعظم راتھر سے جانے کی کوشش کی کہ آخر کیوں یہ نئے سرے سے رجسٹریشن کی ضرورت پڑی؟تو ان کا کہنا تھا یہ اعلیٰ حکام سے ہمیں گائید لائینس ہیں اور سرکار کی نئی پالیساں بنتی رہتی ہیں۔ان کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنی تحصیل میں پنچائت سطح پر کیمپ کروا کر رجسٹریشن کی ہے اور میری تحصیل کا 80فیصد عمل مکمل ہو چکا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جن لوگوں کے فنگر پرنٹس نہیں آرہے ان کے کاغذات ابھی آن لائین نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے لئے محکمہ کی ابھی کوئی گائیڈ لائینز نہیں ہے کہ ان کا کیا کرنا ہے؟
اسی اثناء میں کمشنر برائے ڈس ایبلٹیزپرسنزایم اقبال لون نے ڈس ایبیلزپرسنز حقوق قانون (آر پی ڈبلیو ڈی)2016کی عمل آواری کا جائزہ لینے کیلئے ایک اجلاس بھی طلب کیا جس میں کمشنر موصوف نے تمام ضلعی سماجی بہبود آفیسران سے مختلف سماجی تحفظ کی اسکیموں کے تحت ڈس ایبیلز پرسنز کو خصوصی مدد کرنے کو کہا۔انہوں نے آفیسران کو ضلع سطح کی ڈس ایبیلز کمٹیوں کے حوالے سے بھی اہم جانکاری دیتے ہوئے ڈس ایبیلز پرسنز کو با اختیار بنانے کیلئے مختلف اقدامات پر روشنی ڈالی۔ اس سے صاف ظاہرہے کہ اعلیٰ حکام بھی ڈس ایبیلز پرسنز کے مسائل سے بخوبی بیدار ہے اور پیش رفت بھی کر رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ضلع سطح پرجموں و کشمیر کے تمام اضلاع میں ڈس ایبلیز پرسنز کو خصوصی تعاون پیش کیا جائے، اور ان کو درپیش چیلنج کا فوری ازالہ کر رجسٹریشن کے عمل کو مزید آسان بنایا جائے تاکہ انہیں اپنی جسمانی کمتری کا احساس نہ ہو۔(چرخہ فیچرس)