ڈاکٹر عریف جامعی
ربّ تعالی نے عقل و شعور کی ضو فشانی سے اگرچہ انسان کی راہوں کو مستنیر کیا تھا، لیکن اس میں یہ امکان موجود تھا کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ انسان بہت سی باتیں بھول جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رب تعالی نے یہ سبیل کر رکھی تھی کہ تسلسل اور تواتر کے ساتھ پیغمبران کرام کے ذریعے انسان کی یاد دہانی کی جاتی رہے۔ اس ربانی منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیدنا آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی رب تعالی نے ہدایت کی اس ترسیل کا اعلان ان الفاظ میں کیا: ’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔‘‘ (البقرہ، ۳۸) اس اعلان سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے لئے عقل و شعور کی مکمل روشنی کے ساتھ ساتھ نور ہدایت کا اچھا خاصا انتظام کیا گیا۔ اس طرح کوئی بھی انسان انفرادی سطح پر اور کوئی بھی انسانی مذہبی گروہ اجتماعی سطح پر اس بات کا شکوہ نہیں کرسکتا کہ انسان کو گناہ یا گمراہی کے اندھیرے میں پیدا کیا گیا ہے۔
ہدایت کی پیغام رسانی کا یہ پر مشقت کام پیغمبران کرام ؑ نے بڑی جانفشانی اور دلسوزی سے انجام دیا۔ اپنے مخاطبین کی تعییب، تضحیک اور استہزاء کو سہتے ہوئے خدا کی ان برگزیدہ ہستیوں نے انسانیت کی خیرخواہی کا کار عظیم نہایت خوبی کے ساتھ نبھایا۔ یہی نہیں بلکہ اس راہ جانگسل میں انہوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ اس ساری جدوجہد میں ان تمام مشکلات کے علی الرغم پیغمبران کرام ؑ نے خدا کی خالص تعلیمات کے ساتھ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنا گوارا نہیں کیا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ تعلیمات اپنی اصل اور اپنے جوہر کے لحاظ سے ہمیشہ ایک ہی تھیں۔ تاہم ان تعلیمات کی تعبیر کو سمجھنے میں ان کے متبعین نے غلطی کھائی۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ان تعلیمات کے حصے بخرے کیے۔ قرآن کی رو سے: ’’جیسے کہ ہم نے قسمیں کھانے والوں پر اتارا۔ جنہوں نے اس کتاب الہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔‘‘ (الحجر، ۹۰-۹۱) یعنی رسولوں کے متبعین نے اپنی کج فہمی سے کچھ اس طرح کا اختلاف دہرایا جس میں انسان رسولوں کے آنے سے قبل مبتلا تھا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے، اللہ تعالی نے نبیوں کو خوش خبریاں دینے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں بازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔‘‘ (البقرہ، ۲۱۳)
الٰہی تعلیمات کے اسی نصاب کی اب قرآن کے ذریعے تکمیل ہورہی تھی، تاکہ رہتی دنیا تک انسان ہدایت کی اسی تجلّی سے فیضیاب ہوتا رہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا اعلان ہے: ’’آج میں نے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔‘‘ (المائدہ، ۳) یہ بھی انسانیت پر اللہ تعالی کا کرم ہے کہ الٰہی تعلیمات کی نگہبانی قرآن کے ذریعے کی گئی، کیونکہ قرآن کو باقی آسمانی کتابوں کے لئے ’’مہیمن‘‘ (محافظ، المائدہ، ۴۸) بنایا گیا، جبکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ رب تعالی نے خود لیا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ (الحجر، ۹) یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ’’تکمیل ہدایت‘‘ کا ’’ختم نبوت‘‘ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے، کیونکہ قرآن اور صاحب قرآنؐ کو ایک اکائی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس اکائی کو قرآن میں ’’بینہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی ’’کھول کر بیان کرنے والی چیز‘‘ یا ’’دلیل‘‘ اور اس کی تشریح اس طرح کی گئی ہے: ’’اللہ تعالی کا ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھے۔‘‘ (البینہ، ۲) یہی وجہ ہے کہ نزول قرآن اور نبی ؐ کے ذریعے اس کی تعلیم، تبیین، تفہیم اور تذکیر کو انسان کی تخلیق جیسا عظیم واقعہ قرار دیا گیا۔ قرآن کا فرمان ہے،’’رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘ (الرحمٰن، ۱-۴)
تکمیل ہدایت کے اسی واقعے کو اہل ایمان کے لئے برتنے کا ایک عرصہ یا موسم (رمضان) قرار دیا گیا۔ اس کی سبیل کچھ اس طرح کی گئی کہ اسے رکن اسلام بناکر فرائض کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ یہاں پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ہر زمانے میں انسانیت کے حساس طبقے، جسے اعلی حقائق کا ادراک حاصل تھا، نے صوم کو ہی تزکیہ اور پاکیزگی کا ذریعہ بنایا تھا۔ اس بات کا اظہار مریم ؑ کے ان کلمات سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے قوم کے سامنے اپنی برأت کے لئے پیش کیے تھے، یعنی ’’اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑجائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمٰن کے نام کا روزہ مان رکھا ہے۔ میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی،‘‘ (مریم، ۲۶) اور اسی بات کی تصویر کشی خدا کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ ’’جس طرح (روزہ) تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔‘‘ (البقرہ، ۱۸۳) اس طرح صوم انسانی عمل کے اعتبار سے اللہ تعالی کے شکر کا ایک ذریعہ ہے، جبکہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے یہ تقویٰ کی ایک مشق ہے۔ اب جہاں تک تقوٰی کا تعلق ہے تو یہ نفس انسانی کے اس تزکیہ کی سیڑھی ہے جس کے لئے رسالتمآبؐ کو مبعوث فرمایا گیا۔
بندۂ مؤمن یہ شکر اس لئے کرتا ہے کہ اس کے لئے اسی ماہ میں قرآن کی صورت میں ہدایت کا اہتمام اور انتظام کیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دل، جو تقویٰ اور تزکیہ کا مہبط ہے، کی زمین کو ہدایت کے لئے ہموار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانی دل انسان کے ذریعے (خصوصاً یکم رمضان سے) انجام دیئے جانے والے اعمال صالحہ تقویٰ اور تزکیہ کے لئے ایک مشق اور ریاض ثابت ہوتے ہیں۔ صالحیت کی اس سطح پر کتاب اللہ انسان کے لئے ’’ہدایت اور فرقان‘‘ بن جاتی ہے۔ اسی بات کی طرف صوم رمضان کا مقصد بیان کرنے والی یہ آیت اشارہ کرتی ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لئے ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘(البقرہ، ۱۸۶)
مؤمنین کی صالحیت اب اپنی انتہائی سطح پر ہوتی ہے جب وہ رمضان کے آخری عشرے میں داخل ہوتے ہیں اور شب قدر کی تلاش شروع کرتے ہیں۔ یعنی اب وہ اس قابل ہوچکے ہوتے ہیں کہ اس رات یا اس رات کی ان ساعتوں کا نہ صرف فکری سطح پر ادراک کرسکیں بلکہ نفسیاتی سطح پر بھی ان لمحات کو محسوس کرسکیں جب قرآن نازل کیا گیا۔ یہ ادراک اور احساس انسان کے لئے نہایت ضروری ہے، کیونکہ انسان کوئی میکانکی یا مشینی وجود نہیں ہے۔ اس لئے اس پر ہمیشہ ایک ہی کیفیت طاری نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے اس کے لئے ایسی گھڑیوں کا ہونا بہت ضروری ہے جب اس کے لئے اعلی حقائق کی کنہہ تک پہچنا ممکن ہوسکے۔ ظاہر ہے کہ ذات باری تعالی، جو وراء الوراء ہے، کے علاوہ انسان کے لئے ہر طرح کی حقیقت پر غور کرنا ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مؤمن صادق کے لئے لیلتہ القدر کی ساعتوں میں غور و فکر کے ایسے دریچے وا ہوتے ہیں جو عام حالات میں بہرحال ممکن نہیں ہے۔ چونکہ انسان عام اوقات میں زیادہ تر جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے میں مصروف رہتا ہے، اس لئے اس صورتحال سے نکالنے کے لئے اسے لیلتہ القدر کی طرف آتے ہی خبردار کیا جاتا ہے کہ ’’اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟‘‘ (القدر، ۲) بے شک انسان صرف ظاہری اور ٹھوس اشیاء کا ہی (قدر) ’’صحیح اندازہ‘‘ ٹھہرا سکتا ہے، وہ بھی نہایت ہی محدود پیمانے پر۔ جہاں تک لطیف اور مجرد حقائق کا تعلق ہے، تو انسان نے یہ اندازے ہمیشہ غلط ہی ٹھہرائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ذات خداوندی، جو حقیقت الحقائق ہے، کے بارے میں بھی انسان کے اندازے نہایت ہی ناقص رہے ہیں۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ ااس کی قدر (عظمت و کبریائی سمجھنے کا) حق ہے۔‘‘ (الزمر، ۶۷) چونکہ خدا کی ہدایت یعنی قرآن انسان کی ہدایت کا انتظام اس کی مادی جہت کے بجائے اس کی نفسیاتی، اخلاقی اور روحانی جہات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتا ہے، اس لئے ان مجرد حقائق اور اس ہدایت کے درمیان تعلق کا اندازہ (ایسٹمیٹ) لیلتہ القدر (اندازہ ٹھہرائے جانے یا قدرومنزلت والی رات) میں ٹھہرایا گیا۔
اس رات میں ہدایت کی تنزیل اور ترسیل کے واقعے کو کس طرح مؤمن کے سامنے لایا جاتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے اس بات کس سمجھنا بہت ضروری ہے کہ قرآن کے نزول کے لئے رب تعالی نے کس طرح کا انتظام فرمایا۔ واضح رہے کہ نبی ؐ کی بعثت سے قبل یعنی قرآن کا نزول شروع ہونے سے پہلے شیاطین جن آسمانوں کی طرف جاکر بیٹھ جاتے اور کاہنوں کے لئے کچھ خبریں لاتے۔ قرآن کا نزول شروع ہوتے ہی شیاطین کی ان کاروائیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا اور آسمانوں پر پہرے بٹھا دیئے گئے۔ اس اعلی ترین حفاظت کا ذکر قرآن میں کچھ اس طرح کیا گیا ہے: ’’اور یہ کہ پہلے ہم (جن) سن گن لینے کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لئے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔‘‘ (الجن، ۹) اسی سے ملتا جلتا انتظام رمضان المبارک شروع ہوتے ہی کیا جاتا ہے جب ’’رحمت یا جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازوں کو بند کیا جاتا ہے اور سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
لیلتہ القدر کو یہی انتظام اپنی انتہائی شکل اختیار کرلیتا ہے جب ان تمام انتظامات کا (بلا کیف ولا تشبیہ) جائزہ لینے کے لئےجبرائیلؑ فرشتوں کے ہمراہ زمین پر آتے ہیں۔ (القدر، ۴) واضح رہے کہ جبرائیلؑ خاص خاص مواقع پر ہی اس شان کے ساتھ آتے ہیں۔ مثال کے طور پر قیامت کے روز ’’فرشتے اور (الروح) جبرائیل ؑ رب تعالی کے سامنے صف باندھے کھڑے ہوں گے۔‘‘ (النبا، ۳۷) چونکہ جبرائیل (ع) کے لئے لفظ ’’الروح‘‘ استعمال کیا گیا ہے، اس لئے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس موقعے پر تقویٰ سے متصف انسانی روحوں اور ملائکہ کے درمیان ایک حسین قربت پیدا ہوتی ہے۔ تاہم یہ قربت صرف وحئ قرآن کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے، جسے (روح، بنی اسرائیل، ۸۵) مفسر قرآن جار اللہ زمخشری کے مطابق روح کہا گیا ہے۔ اس روح یعنی قرآنی وحی کا انسانی ہدایت کے لئے وہی مقام ہے جو دل کا انسانی جسم کے لئے ہے۔
چونکہ مدت مدید میں بھی انسانیت کی ہدایت کے لئے ایسا انتظام نہیں کیا گیا تھا، جو اس رات کو ہوا، اس لئے اس رات کو ’’ہزار مہینوں سے بہتر‘‘ (القدر، ۳) یعنی عرصۂ دراز سے افضل قرار دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس رات ’’ایمان اور احتساب سے قیام کرنے والے کے تمام پچھلے گناہ معاف کیے جاتے ہیں‘‘(متفق علیہ) اور جو شخص اس رات کے ’’خیروبرکت سے محروم رہا وہ بس محروم (بے نصیب) ہے!‘‘ (ابن ماجہ) اس سلسلے میں جب امت کی ماں، سیدہ عائشہ ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوال کیا کہ ’’اگر میں اس رات کو پاؤں تو کون سی دعا کروں،’’ تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ آپ یہ دعا مانگیں: اللہم! انک عفو، تحب العفو، فاعف عنی۔‘‘ (ترمذی) اس دعا سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ چونکہ رب تعالی مغفرت فرمانے والا ہے اور مغفرت فرمانا اسے محبوب ہے، اس لئے اس کی سبیل یہ کی گئی کہ انسان کو راہ مغفرت کی طرف لانے کے لیلتہ القدر میں قرآن کا نزول کرکے نور ہدایت کی تکمیل کی گئی۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)