تبصرۂ کتب
غازی سہیل خان
راشد شاز صاحب کی تحاریر بڑی دلچست ہوتی ہیں،قاری پر اپنی گرفت اور پکڑ اول تا آخر زبردست بنا کے رکھتے ہیں، روانی اور تسلسل کا کیا ہی کہنا،شرط یہ ہے کہ احتیاط سے پڑھی جائے اور وہی قاری پڑھے جس نے پہلے کچھ کتابیں اور نظریات کو پڑھا اور سمجھا ہو۔آج لایحییٰ پر بات کرنا چاہوں گا۔ اس سے پہلے راشد صاحب کی لایموت کو حرف بہ حرف پڑھا ہے۔لایحییٰ بھی سمجھ لیجیے اسی خودنوشت لایموت کا تسلسل ہے۔ لایموت میں تو مصنف موصوف نے کانگرس پارٹی کی خبر لی ہے، اُسی طرح سے لایحییٰ میں ہندوستان کی مذہبی، دینی اور سیاسی جماعتوں سے خاصی ناراضی کا خوب اظہار کیا ہے۔ویسے تو مجھے راشد صاحب کی کتابیں احتیاط سے پڑھنے میں دلچسپی ہے اور ان کی مشہور اورمبینہ طور متنازعہ کتاب ادراکِ زوالِ اُمت کو خریدا ہے تاہم ابھی غمِ روزگار کے سبب پڑھ نہیں پایا۔
چند ماہ پہلے چنار بُک فیسٹیول میں راشد صاحب کی ایک اور خودنوشت لایحییٰ پر نظر پڑی اور پڑھ کے مکمل کر لی۔کتاب 552 صفحات پر مشتمل ہے مختصر اور جامع عناوین کے تحت واقعات کو خوبصورتی سے رقم کیا ہے۔ پرینٹنگ اور ڈیزائنگ خوبصورت، سرورق پر راشد صاحب کی پُر کشش تصویر قاری کو اس شخص کے اندر جھانکنے پر مجبور کرتی ہے۔
کتاب میں نوے کی دہائی سے 2017تک دنیا کے ممالک کے دورے، عالمی سطح کی کانفرنسوں میں شرکت اور ایک تحریک ملی پارلیمنٹ کی روداد شامل ہے۔ واضح رہے ملی پارلیمنٹ ایک ایسی تحریک،جماعت تھی جو جنم لینے کے فوراً بعد وفات پا گئی۔وہیں مصنف موصوف نے عراق، افغانستان اور دنیا کی دیگر جنگوں کو قریب سے جاننے کی کوشش کی ہے۔ ملی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی کے بڑے کٹھن مراحل کو پڑھتے پڑھتے کبھی قاری پر خوف بھی طاری ہوتا ہے۔ملی پارلیمنٹ کی سرگرمیوں کو پڑھ کے قاری اسی انتظار میں رہتا ہے کہ اگلے صفحے پر شاید یہ پڑھنے کو ملے کہ پھر مجھے یعنی’’راشد شاز‘‘ کو عمر قید کی سزا ملی، یا جیل کے اذیت ناک مراحل سے گزرا لیکن آخری صفحے تک ایسا کچھ پڑھنے کو نہیں ملتا۔
ملی پارلیمنٹ کی شو کے فلاپ ہونے پر نوحہ خوانی کرتے ہوئے راشد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میری یادوں میں ملی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس کا وہ منظر جاگ اُٹھا جب ہم لوگ بھی اجلاس کے ظاہری تزک و احتشام،کیمروں کی کلک،کلک اور ذرائع ابلاغ کے ہجوم کے سبب اس اجلاس کو،لال قلعہ سے مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد دہلی کی سرزمین پر مسلمانوں کی اپنی پارلیمنٹ کا انعقاد سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے۔الفاظ کا طلسم ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اچھے بھلے آدمی کو اپنے ہی پیدا کردہ مصنوعی منظر نامے (simulation)پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے‘‘۔ص ۹۹۴۔
حرم میں اعتکاف عنوان میں لکھتے ہیں کہ’’حرم مکی میں میرے قیام کا آج ساتواں دن تھا۔ ان سات دنوں میں کئی بار ایسا لگا جیسے کوئی میرے کانوں میں سرگوشی کرتا ہو،کہتا ہو کہ زندگی ایک بار جینے کو ملتی ہے اسے کسی شخص یا ادارے کی ملازمت میں دے کر گنوانا پر لے درجے کی حماقت ہے،چند پیسوں کے لئے اپنی آزادی کو رہن رکھ دینا ہے۔کبھی خیال آتا کہ زندگی تو ایک جشن مسلسل کا نام ہے،ایک عطیہ خداوندی ہے اسے کسی بہانے کوئی اچک لے گیا تو اپنی گانٹھ میں کچھ بھی نہیں رہ جائے گا‘‘۔ص ۱۱۔
کتاب میں عراق جنگ اور اس دور کے چنگیز صفت صدر جارج بُش کی سفاکیت اور مغربی میڈیا کا دوغلا پن بھی واضح کیا گیا ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ان دنوں امریکی ذرایع ابلاغ میں’’Collateral Damage‘‘کا بڑا چرچا ہے۔اس اصطلاح کے پیچھے بڑی سفاکیت چھپی ہوئی ہے۔آپ نے شہری آبادی پر بم گرایا،اسکولوں،ہسپتالوں اور کارخانوں کو تباہ کر دیا اور اس بہیمیت پر شرمندہ ہونے کے بجائے یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ یہ دراصل ’’Collateral Damage‘‘ہےجنگوں میں نشانے تو خطا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ذرایع ابلاغ کی دسیسہ کاریوں کو سمجھنے کے لئے صرف انگریزی زبان کا جاننا کافی نہیں،خوشنما اصطلاحوں (euphemism)کی ایک طویل فہرست ہے جس نے ایک متبادل مگر بے رحم لغت کوجنم دیا ہے۔وغیر ہ۔ص ۵۰۱۔
اسی طرح سے دینی جماعتوں ہر کسی مسلک و گروہ پر کڑی تنقید کی ہے، خاص پر علماء کی تنقید کی ہے۔چند جگہوں پر لگتا ہے کہ تنقید حقائق پر مبنی ہے چند پر زیادتی محسوس ہوتی ہے۔ اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ اس تنقید کوکیسے کیا سمجھتا ہے۔
الغرض راشد شاز صاحب اپنے دورِ شباب میں انتہائی جذبے اور ولولے کے ساتھ ایک مختصر ترین وقت میں انقلاب لانا چاہتے تھے، بلکہ پہلے پہل پڑھ کے لگا کہ جیسے انہوں نے ملی پارلیمنٹ کی سرگرمیاں انجام دی تھی کم از کم ہندوستان میں تو اسلامی انقلاب آ گیا ہوتا۔لیکن رفتہ رفتہ سوڈا واٹر کے جوش کے عین مطابق موصوف کی تحریک کا جوش بھی ٹھنڈا ہی نہیں ہوا بلکہ انتہائی بے دردانہ طریقے سے اپنی موت آپ مر گیا۔چند موقعوں پر قاری کو مصنف موصوف یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے لوگوں کو انقلاب لانا آتا نہیں ،اب راشد شاز آپ لوگوں کو دکھائیں گے کہ اقامت دین کیسے ہوتا ہے، نظام مصطفیٰ کیسے قائم ہوتا ہے اور پورا برصغیر دارالاسلام کیسے بنتا ہے۔! ان کی اس سوچ و فکر میں یہ طوفانی انداز شاید اپنی جوانی کے جوش کے سبب لہریں مار رہا تھا جس کے سبب انہیں مستقبل کے حالات کے سرد و گرم تھپیڑوں کا کوئی اندازہ نہیں تھا،حالاں کہ موصوف کی مخلصی اور جذبے کی داد دیے بغیر قاری کنجوسی نہیں کر سکتا۔
محترم شاز صاحب کی اس کتاب کو پڑھ ایک تحریکی کارکن یا اقامت دین کا شیدائی اقامت دین، اور انقلاب کی اصطلاحوں سے ڈر محسوس کرنے لگتا ہے۔چند جگہوں پر ایسا محسوس ہوا کہ رشد شاز صاحب ملت اسلامیہ کے لیے مولانا مودودی، حسن البنا، علامہ قرضاوی محدث، مفکر یا مفسر بننے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن شاز صاحب نے ان شخصیات اور ان عالمی تحریکات کو یا تو اپنے انداز میں سمجھنے کی کوشش کی یا انہیں سمجھ ہی نہیں پائے جس کے سبب ان کے مفکر اور امام وعصر بننے کی گاڑی کا پہیہ منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی پنکچر ہو گیا۔اس سب خامہ فرسائی کے بعد میں راشد صاحب کے قلم اور انداز تحریر سے خاصا متاثر ہوں۔قاری کے اندر دلچسپی اور اول تا آخر اپنی تحریر کے ساتھ جوڑ کے رکھنا نئی نسل راشد صاحب سے سیکھے۔ لکھنے میں روانی اور حالات کو ایک نرالے انداز میں رپورٹ کر کے اُن پر تبصرہ کرنا قاری کے دل کو بھا جاتا ہے۔وہیں اس ساری کتاب میں مصنف کو خاصا مخلص بھی پایا،کتاب کو خوبصورتی کے ساتھ چمن انٹر پرائزیز نئی دہلی نے شایع کیا ہے ۔سرورق مصنف موصوف کی تصویر کے ساتھ خاصا پُرکشش ہے۔قیمت بھی مناسب ہی معلوم ہوتی ہے تاہم قیمت میں رعایت ضروری ہے۔میں سبھی پڑھنے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے حالات سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور کہوں گا کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔ان شاء الله فائدہ ہوگا۔کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر ریاستوں میں کتاب ’’لایحییٰ‘‘دستیاب ہوگی۔
مبصر سے اس نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ 7006715103