شخصیات
شہنواز نذیر
برف میں لپٹی وادیوں، چشموں کی مدھم سرگوشیوں اور صوفیانہ ہوا کی نرم مہک سے بھری ہوئی زمین. یہ ہے کشمیر۔ یہ وادی ہمیشہ سے روحانیت اور محبت کا مسکن رہی ہے۔ یہاں ہر بستی، ہر گلی، ہر مسافرگاہ اپنے اندر ایک داستان رکھتی ہے۔ ایک ایسی داستان جس میں اولیاء کی قدم بوسی کا فیض ہے، درویشوں کا اخلاص ہے، عاشقوں کا آہنگ ہے اور انسانیت کا پُرسکون لمس ہے۔ یہی وہ مقدس خطہ ہے جہاں شیخُ العالمؒ کی حکمت نے صدیوں تک دلوں کو روشنی بخشی، جہاں شمس فقیر کی درد آگیں صدائیں آج بھی پہاڑوں اور بستیوں میں گونجتی ہیں اور جہاں مقبول شاہ کرالپوریؒ جیسے بزرگ نے انسانیت کو محبت اور سادگی کا سبق دیا۔ انہی نسبتوں اور انہی روحانی سایوں میں ایک چراغ 1956 میں ضلع بڈگام کے گاؤں بوروہ چاڈورہ کے ایک گھر میں روشن ہوا۔ اس چراغ کا اصل نام غلام احمد رینہ تھا، مگر محبت اور احترام نے انہیں عازِمؔ بنا دیا۔
عازِمؔ کا وجود عام لوگوں جیسا نہیں تھا۔ ان کی شخصیت میں وہ وقار، وہ لطافت اور وہ خاموش روشنی تھی جو صرف ان لوگوں کے اندر اترتی ہے جن کی روحیں آسمان کی چادر سے بندھی ہوتی ہیں۔ بوروہ کی مٹی صاف دل لوگوں کی مٹی تھی۔ وہ لوگ جو محنت کرتے، کماتے اور شکر ادا کرتے۔ اسی سادہ ماحول میں عازِمؔ نے آنکھ کھولی۔ گھر میں دولت کی چمک تو نہ تھی مگر رزقِ حلال کا اطمینان تھا۔ کمی نے انہیں صبر کا لہجہ عطا کیا اور محنت نے ان کے اندر وہ دردمندی پیدا کی، جس نے آگے چل کر ان کی شخصیت کو ایک نرم دل رہنما کی صورت بخش دی۔ یہی وہ بنیاد تھی جس نے انہیں ایک ایسا انسان بنایا جو دوسروں کے درد پر پہرے نہیں بٹھاتا تھا بلکہ اسے اپنے دل میں جگہ دیتا تھا۔ان کے والد غلام محی الدین رینہ زمیندار تھے۔ زندگی محنت چاہتی تھی اور وہ اسی محنت میں پلتے گئے۔ ابتدائی تعلیم زوہامہ ہائی اسکول میں ہوئی جہاں ان کے استاد غلام رسول رینہ نے نہ صرف ان کی ذہنی تربیت کی بلکہ ان کے دل کی کھڑکیاں بھی کھول دیں۔ پھر جب زندگی نے انہیں موتی لال ساقی، عبدل سلام ثانی کرالوری اور عادل کرالوری جیسے اہلِ نظر کی صحبت دی تو ان کے اندر کی آگ نے رنگ بدلنا شروع کیا۔ ان میں شاعری کا شعلہ پہلے ہی موجود تھا، مگر یہ صحبت گویا اس شعلے پر محبت کا تیل ڈالنے والی تھی۔ یہی محفلیں، یہی راتیں، یہی سوال و جواب ان کی شخصیت کا اصل سرمایۂ حیات بنیں۔
میٹرک کے بعد ان کے اندر کا شاعر پوری شدت سے بیدار ہوا۔ مگر یہ وہ شاعری نہیں تھی جو محض کاغذ پر لکھی جاتی ہے، یہ وہ شاعری تھی جو دل سے اترتی ہے اور دل تک پہنچتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے:’’شعر بنایا نہیں جاتا، شعر خود اترتا ہے جب دل کا دروازہ کھل جائے۔‘‘ان کے اشعار میں نعت کی مہک تھی، تصوف کی لطافت تھی، انسانی درد کی آگ تھی اور دل کی بیداری کی صدا تھی۔ ان کے کلام میں ایک خاص کیفیت تھی جو محض سننے سے زیادہ محسوس ہوتی تھی۔
پرؠتھ کوچہ دپان ژائے لُوٹھِ گئے
پرؠتھ سیٖنہ کوی اَمار باوے کس
پرؠتھ برگہ دپان داغ سینس چاک
پرؠتھ مرگہ اندر مار باوے کس
ؠتھ روے زرد گوئ ژے عازم صأب
ؠتہ پوش کس وؠوہ باوے کس (عازِمؔ)
یہ اشعار صرف زبان کے نہیں بلکہ زندگی کے تجربات کے تھے۔ ان کا کلام محض الفاظ نہیں تھا، وہ ایک لمس تھا۔ وہ آنکھ کی نمی، دل کی نرمی اور روح کی سمت بن سکتا تھا۔ مگر افسوس کہ ان کا یہ خزانہ کتاب کی صورت میں روشنی میں نہ آسکا۔ شاید یہ بھی ایک آزمائش تھی، وہ خزانے اکثر کتابوں میں نہیں آتے، جو انسانوں کے دلوں میں محفوظ رہنے کے لیے ہوتے ہیں۔ان کا روحانی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا۔ ان کے روحانی سفر نے انہیں احد بب سوپور کے ایک فنا فی اللہ درویش کی صحبت عطا کی۔ وہ ملاقات فیصلہ کن تھی۔ وہیں ان کے اندر کا چراغ پوری طرح روشن ہوا۔ وہیں انہوں نے جانا کہ ذکر صرف زبان کی حرکت نہیں، یہ دل کی دھڑکن ہے کہ فکر صرف سوچ نہیں، روشنی ہے کہ خدمت محض عمل نہیں، عبادت ہے۔ وہ اکثر کہتے:’’جس میں خدمت نہیں، اس میں تصوف نہیں۔‘‘یہ جملہ حقیقت میں ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھا۔ وہ لوگوں کے لیے آسانی تھے، سہارا تھے، پناہ تھے۔ ان کے دروازے پر آنے والا خالی نہیں لوٹتا تھا، چاہے وہ مدد مال کی ہو، وقت کی ہو یا دل کے سکون کی۔
عازِمؔ نے سیاست کو بھی خدمت کے دروازے کے طور پر اپنایا۔ کانگریس کے مقامی سطح سے ضلعی سطح تک وہ مختلف عہدوں پر رہے، مگر ان کی سیاست سیاست نہ تھی۔ وہ اقتدار نہیں چاہتے تھے، انہیں نام اور پہچان کی ہوس نہ تھی، وہ بس لوگوں کے لیے موجود رہنا چاہتے تھے۔ گاؤں کی پگڈنڈی سے لے کر عدالت کے قدموں تک وہ لوگوں کے ساتھ چلتے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ ان کی آواز بلند ہو مگر ان کی بات دل میں اتر جاتی تھی۔ لوگ کہتے تھے: ’’مشکل ہو تو عازِمؔ کو بلا لو۔ وہ دروازہ بھی کھلوا دیتے ہیں اور دل بھی۔‘‘ان کی زندگی نے بہت سے لوگوں کے دل روشن کیے۔ ان میں سے ایک نمایاں نام فہیم فردوس کا ہے، جو آج بھی ان کی فکر اور روشنی کا چراغ ہاتھ میں لیے چل رہا ہے۔ کسی انسان کے اثر کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اس کے جانے کے بعد بھی اس کی بات باقی رہے۔ عاظم کی بات باقی ہے۔ ان کی روشنی باقی ہے۔
نوجوانوں کے لیے ان کا پیغام ہمیشہ سادہ مگر گہرائی سے بھرا ہوا تھا:’’پہلے انسان بن جاؤ۔ باقی سب بعد میں آتا ہے۔‘‘یہ جملہ کسی نصیحت سے زیادہ آئینہ تھا۔ علم ہو مگر رحم نہ ہو تو علم بوجھ ہے۔ دولت ہو مگر سخاوت نہ ہو تو دولت زنجیر ہے۔ عہدہ ہو مگر اخلاق نہ ہو تو عہدہ زہر ہے۔ وہ کہتے تھے کہ انسان اس وقت تک زندہ ہے جب تک وہ کسی دوسرے کے لیے روشنی ہے۔9 اگست 2024 کی ایک دھیمی سی صبح، وادی کی ہوا یکدم خاموش ہوئی۔ ایک چراغ بجھ گیا۔ مگر چراغ بجھنے سے روشنی ختم نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی روشنی جلنے کے بعد پھیل جاتی ہے۔ وہ روشنی اب مٹی کے ذروں میں ہے، ہوا کی لہر میں ہے، دعاؤں کے درمیان ہے اور یاد کی نرمی میں ہے۔ لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ ان کی باتیں یاد آتی ہیں، ان کی مسکراہٹ یاد آتی ہے، ان کی آنکھوں کی نرمی یاد آتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا سے جاتے نہیں، دنیا کی رگوں میں اُتر جاتے ہیں۔عازِمؔ ایک نظم تھے۔ وہ نظم جو کتاب میں نہیں دل میں پڑھی جاتی ہے۔ وہ ایک پھول تھے جس کی خوشبو ہوا کو سپرد ہے۔ وہ ایک چراغ تھے جس کی لو اب دلوں کے اندر چلتی ہے۔ جو لوگ دلوں میں روشنی چھوڑ جاتے ہیں، وہ کبھی نہیں مرتے۔ وہ زندہ رہتے ہیں۔ہوا کی صورت، دعا کی صورت، یاد کی صورت اور محبت کی صورت۔عازم بھی انہی میں سے ایک تھے۔
رابطہ۔7889820373
[email protected]