ڈاکٹر عبدلمجید بھدواہی
شہر کی پوش کالونی میں رہنے والا ایک شخص اپنی دولت، جاہ وحشمت اور صاحب ثروت ہونے کی وجہ سے سب پر حاوی تھا ۔ اس شخص کا نام سیٹھ سلیمان تھا ۔شہر کے بڑے بڑے مکان شاندار عمارتیں ، قیمتی گاڑیاں اور وسیع و عریض باغات سیٹھ کی ملکیت تھے۔ اس کے یہاں ہمیشہ ملازموں کی قطار رہتی، لیکن وہ کبھی سیدھی بات کرنا گوارا نہ کرتا۔ کسی کے سلام کا جواب دینا بھی وہ اپنی توبين سمجھتا۔
سیٹھ کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ سب دولت جاہ و جلال اس کی محنت اور دیانت کا ثمر ہے۔ وہ نہ کبھی خدا کا شکر ادا کرتا نہ نماز پڑھتا اور نہ روزہ رکھتا۔ اس کی زندگی غرور اور تکبر کی زندہ تصویر تھی۔
اس کے گھر میں رمضان نام کا ایک نوکر تھا ۔ رمضان کو وہ کئی برس پہلے بازار سے اٹھا لایا تھا۔رمضان، غربت اور غلامی کے باوجود ایک نیک اور عبادت گزار شخص تھا۔ فجر کی اذان سے لے کر عشاء کی دعا تک اس کی زبان ذکر الہی سے تر رہتی۔
ایک دن اچانک سیٹھ سلیمان کو ایک انجانی بیماری نے دبوچ لیا۔ جسم ٹوٹ پھوٹ گیا، بھوک ختم، نیند غائب اور بدن مسلسل درد میں ڈوبا ہوا۔ شہر کے بہترین ڈاکٹر، بڑے بڑے ہسپتال باہر کے ملکوں کے حکیم سب نے علاج کیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔
سیٹھ کی شوخی، اکڑ اور غرور ٹوٹنے لگا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ بزرگوں کی زیارت پر جا کر دعا مانگو، شاید شفاء ملے۔ وہ بڑی مشکل سے ایک زیارت گاہ پر گیا۔ یہ زیارت ایک پہاڑی پر واقع تھی۔ لیکن وہاں بھی اس کی طبیعت نے ساتھ نہ دیا۔ وہ جلدی جلدی زیارت کر کے واپس پلٹنے لگا۔
اسی وقت ایک درویش صورت ملنگ بابا نے اسے روک لیا۔
بابا کی آنکھوں میں عجب نور اور لہجے میں عجیب رعب تھا۔
انہوں نے کہا:
سيٹھ بیماری تیرا امتحان ہے۔ یہ سب دولت محل اور گاڑیاں تیرے کسی کام نہ آئیں گے۔ اصل شفا عاجزی اور سجدے میں ہے۔ اپنے غرور کو توڑ اور اللہ کے سامنے گڑگڑا کر دعا مانگ ۔ وہی شفا دینے والا ہے۔ سيٹھ گھبرا گیا. وہ عبادت اور دعا کے طریقے سے بالکل ناواقف تھا۔ اس نے واپسی پر رمضان کو بلا کر کہا:
دیکھو رمضان یہ سب میرے بس کا نہیں۔ تم میرے بدلے دعائیں مانگو اور توبہ کرو۔ اگر میں ٹھیک ہو گیا تو سب کچھ بدل ڈالوں گا۔یہ میرا وعدہ رہا
’’رمضان نے اپنے مالک کے لئے سجدے میں آنسو بہانا شروع کر دئیے ۔ وہ زیارتوں پر جاتا، گڑگڑاتا اور دل سے دعائیں کرتا۔ کئی دن اسی حال میں گزرے۔
مجھے معلوم ہے بیٹا، تم اپنے لیے نہیں بلکہ اس سیٹھ کے لئے روتے ہو۔ جاؤ، اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔ سیٹھ صحت مند ہوگا، اور تمہاری عزت بھی بڑھے گی۔”
بابا کے الفاظ سچ ثابت ہوئے۔ آہستہ آہستہ سیٹھ سلیمان کی صحت بحال ہونے لگی۔ اس کی بیماری دور ہوئی اور بدن میں پھر طاقت لوٹ آئی۔
لیکن اس بار سیٹھ پہلے والا نہ رہا۔ وہ مسجد میں پانچ وقت باقاعدگی سے آنے لگا، قرآن کی تلاوت کرنے لگا، ملازمین سے نرمی سے بات کرتا، غریبوں کا حال پوچھتا، یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھتا۔
لوگ حیران تھے کہ یہ وہی متکبر سیٹھ سلیمان ہے یا کوئی اور؟ سب کہتے:
اصل سیٹھ اب ہمارے سامنے آیا ہے وہ جو دولت کے غرور میں اندھا نہیں، بلکہ عاجزی اور شکر میں جھکا ہوا ہے۔”
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر،موبائل نمبر؛8825051001