معراج زرگر۔ترال
ہمارےیہاں عیدین ماڈرن زمانے کی طرح ’ہائی ٹیک‘ اور’ ڈیجیٹل ‘ہوگئی ہیں۔مجال ہے کوئی دقیانوسی طرز کی عید کا گمان بھی کرے۔عیدین کے دنوں میں بس ایک نمازِ عید کے بابرکت موقع پر لوگ ذرا سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ویسے بھی یہ نمازیں بھی رنگ ٹیونوں ، وائی بریشنوں،اور ملٹی کلر بھکاریوں کی ملٹی کلر’ صدائے دریوزہ گری ‘میں دَب کے پھیکی سی ہوگئی ہیں۔ تکبیرات کو بلند کرنے کے بجائے خفیہ ایس ایم ایس، پرائیویٹ کال، واٹس ایپ میسیج اور نئے برانڈڈ ملبوسات کو بلند کیا جاتا ہے۔آدمی کا اگر بس چلے تو اپنے گھر کی چھت پہ چڑھ کر بلند کرنے کے ان اعمال کو آفاقیت بخشے۔محبت، بھائی چارہ، امن و آشتی، اقوالِ حسنہ، اخلاقیات اور ادب و احترام کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ’ڈل مصالحہ‘ اور’ کَکو ماز‘ بیچنے کی فکر کی جاتی ہے۔اکثر جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اپنے کسی ڈاکٹر صاحب سے کمیشن پر ایک عدد نسخہ بنواکر یا جعلی رسید بُک بنواکر پُر خلوص لوگوں کو امداد اور خیرات کے نام پر چونا لگایا جاتا ہے۔خطبوں کی جگہوں پر بھر پور سیاست چمکائی جاتی ہے اور پھر اسی’ مذہبی سیا سست ‘یا’سیاسی مذہبیت ‘سے لوگوں کو مست کیا جاتا ہے۔سادہ لوح لوگ اس سیاست کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور اپنی جیبیں تک کٹوانے پر پھولے نہیں سماتے۔
ہائے بے چاری بقر عید!بے چاری اور معصوم کس بے دردی اور بے رحمی سے قربان ہو رہی ہے۔بھیڑ بکرے کو ذبح کرنا کتنا آسان ہے۔لیکن یہ بھی اب بس کھیل رہ گیا ہے۔گاؤں دیہات میں تو اب بھی اس کی کچھ روح باقی ہے۔ لیکن قصبہ جات اور شہروں میں تو کئی جگہ اللہ ہی حافظ ہے۔جانور ذبح کرنے سے پہلے ایک اسپیشل لسٹ تیار کی جاتی ہے۔ایک عدد پوری کی پوری سالم ران سمبندھی جی کے ہاں جائے گی اور ہاں صراف جی سے پینتالیس پچاس ہزار روپیہ کا پونڈ یا سات آٹھ تولہ سونے کی ایک عدد انگوٹھی بکرے کی ران کے ساتھ بطورِ زرِ ضمانت رکھنا لازمی ہے۔اس سے بیشتر حاضری گیارہ سو روپیہ کے کرارے نوٹوں میں لپیٹ کر سمبندھی جی کے ہاں اپنی فائنانسڈ گاڑی میں پہنچانا بھی لازمی ہے۔نہیں تو ’شِکس لَد‘ کی ایک نہ مٹنے والی ’پام ‘پہلے ہی سے پاموں سے بھرے ہوئے اکاؤنٹ میں جمع ہو جائے گی۔جس کا عمر بھر پھر ازالہ نہ ہو سکے گا۔باقی بچی ہوئی رانیں فِرج کے سرد خانوں میں گم ہو جاتی ہیں۔اور اُس کے بعد جو بچے گا اس کو اپنے امیر احباب و اقارب اور عزیزوں کے ہاں ہوم ڈیلیوری کردو۔اس کے بعد بچے ہوئے چھچھڑے کتوں اور کو ؤ ں کو ڈال دو۔غریب ہمسائے اور مفلس رشتہ دار گئے بھاڑ میں۔
بھئی ایک اور تماشا دیکھ لو! کیونکہ عید کے دن تماشا کرنا اور تماشوں سے لطف اندوز ہوناہماری طبیعتِ ثانیہ بن گئی ہے۔چاہے کتنی ہی سردی کیوں نہ ہو۔اپنے کچھ cold blooded حضرات اور حضراتیاں شکن آلود جینز اور ریشمی قمیص سے بہ خوشی اپنا کام چلاتے ہیں۔جدید اصطلاح میں اسے price management یا crisis management جیسے الفاظ سے پکارا جاتا ہے۔لڑکیوں کا لڑکوں کے لباس اور لڑکوں کا لڑکیوں کے لباس پہننابھی اس تماشے کا ایک جزو لازم بن گیا ہے۔اس قسم کے تماشوں سے کچھ زیادہ ہی متاثرہ حضرات شبِ عید کو چھوٹی انگلی میں مہندی لگانا، زلفِ گرہ گیر کو ہائیڈروجن سے دھونا، بھنویں دھار دار بنانا، کان چھدوانا یا چھدوائے ہوئے کانوں میں رنگ لگانا بھی نعوذ باللہ ارکانِ عید میں شمار کرتے ہیں۔عید ہی کے با برکت موقع پر کچھ بچی لوگ بھی نئے ڈیزائن کی caps، مردانہ جیکٹ اور سپورٹس شوز خریدنا مستحب سمجھتی ہیں۔جائز و نا جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت جب عیدی کی غضبناک صورت اختیار کرکے نئی نسل کے ذریعے پٹاخوں کی صورت میں پھٹ پڑتی ہے تو اس بات کی صاف وضاحت ہوتی ہے کہ حضرتِ امیر کبیرؒ کے وارد کشمیر ہونے سے پہلے ہم کشمیری کس نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
عید کے دنوں میں بیماروں کی خبر گیری کرنا، ہمسائیوں کی مزاج پرسی کرنا، بزرگوں کے پاس حاضری دینا، مساجد میں حاضری، اللہ والوں کی صحبت میں چند پہر بیٹھنا تو مرد حضرات کے لئے عیدین پر ضروری ہوا کرتا تھا،لیکن اب سب اُلٹ ہو چکا ہے۔ اب یہ نیک کام بھی خواتیں بہ خوبی انجام دیتی ہیں۔ایسے عظیم دنوں میں مرد حضرات گھروں کی رکھوالی پر مامور رہتے ہیں اور خود مرد حضرات بہ نفسِ نفیس خواتین کے لئے ایک پروگرام مرّتب کرتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ جانا ہے۔
سنا ہے عید کے دنوں میں ماضی قریب میں چھوٹی چھوٹی بچیاں محلے کے کسی کونے یا خاموش گمشدہ جگہ پر عید کے روائتی اور مقامی گیت گایا کرتی تھیں، جو بے حیائی، لچر پن، بے شرمی اور دیگر واہیات سے پاک ہوا کرتے تھے۔لیکن ان روایات کو بھی اب اپنے ماڈرن لوگوں نے قربانی کے گوشت کی طرح ہضم کر لیا ہے۔آج کل تو ہوٹلوں، پارکوں، ریستورانوں، آستانوں ا ور غیرِ صحت افزا مقامات کا رُخ کیا جاتا ہے۔مصیبت یہ ہے کہ ادھیڑ عمر کی عورتیں اور ضعیف العمر دادیاں اور نانیاں بھی تبدیلیٔ ہوا کی خاطر محلے کی نزدیکی پارکوں اور عید گاہوں کا رُخ کرتی ہیں۔عیدین کے شام کے اوقات میں عورتوں کے’ عظیم و شان اجتماعات ‘ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔اب سب لوگ ایک ہی ٹائپ کے تو نہیں ہوتے۔سیدھے سادھے اور شریف لوگوں کا جب ان اجتماعات کے راستوں سے گذر ہوتا ہے، تو اللہ ہی حافظ ہے۔آدمی اگر خود کو سمیٹ سمیٹ کر اور بچا بچاکر نہ نکالے تو اچھے خاصے صحت مند آدمی کی تکہ بوٹی کرکے ’حاضری‘ کی طرح کھا جائیں گے۔
ایک اور’ امپورٹڈ تماشے‘ سے بھی لطف اندوز ہوئیگا اور یہ تماشہ ہے عید کے دن تحائف کی در آمد اور بر آمد کا۔یہ عصرِ حاضر کے سنگین ترین مسائل میں سے ایک سنگیں مسئلہ ہے۔Hyegenic اور sophisticated بہاریوں اور نیپالیوں کی بنائی ہوئی کروڑوں روپے کی بیکری اور مٹھائیاں، عید کارڈ، کھلونے اور پتہ نہیں کیا کیا واہیات اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر کی جاتی ہیں۔غریب بے چارے تو ایسی’ بزنس‘اور’ ٹریڈ‘ سی ناواقف ہی ہیں، مگر زندگی کے صد راہے پر کبھی کسی موڑ پر اگر کوئی ملاقات کسی ’ناگہانی دوستی‘ میں بدل گئی، تو پھر غریب کے لئے یہ کسی ’ناگہانی ترٹھ‘ سے کم نہیں۔سوچو تو سہی جب زمانے کا ڈسا ہوا ایک ا میر آدمی کسی غریب آدمی سے رشتہ جوڑے اور عید کے روز حضرتِ امیر اپنی عادت سے مجبور چار پانچ سو روپے کی مٹھائی، ایک عدد سوٹ، دو تین قسم کے میوے اور پچاس سو روپے کا کارڈ لیکر غریب کے ہاں آ دھمکے تو خیال کیجئے کہ غریب کے ہاں عید منائی جائے گی یا ماتم۔ظاہر ہے تحفے واپس کرنے کے خیال سے ہی غریب کی آدھی جان نکل جائے گی۔
جب مذہب اور عقیدوں کا سہارا لیکر اس قسم کے تماشے عیدین پر دیکھنے کو اور کرنے کو ملیں تو پھر سنجیدہ رہنا اور سنجیدگی کی کوئی بات کرنا فضول ہی تصور کیا جاسکتا ہےاور پھر جب یہ تماشے کم از کم ایک ہفتے تک جاری رہیں تو پھر آپ ہی بتائیے کہ’ تماشہ بان اور تماشہ بین‘ شہر میں کون کس کو سمجھائے۔ہماری طرف سے ایک ہی صلاح قبول فرمائیے۔’گائے اور بیل ‘کی سیاست کے دنوں میں قربانی کے گوشت میں گنگا جمنی سیاسی عید ملن تماشے کا چٹخارے دار تڑکا لگائیے۔خود بھی کھائیے اور دوست احباب کو بھی کھلائیے۔ہضم نہ ہونے کی صورت میںآر پار کی نجی ٹی وی چینلوں سے رجوع کیجئے۔ہضم ہونے کے لئے ان چینلوں پہ ہمیشہ کئی نایاب ’ہاضمُلے ‘دستیاب رہتے ہیں۔حاضر لوگ تو حاضری کھائیں گے ہی۔ غیر حاضروں کے لئے بھی کوئی’ سیاسی جگاڑ‘ کرکے حاضری کا بندوبست کریئے گا۔کیونکہ آج کل سب لوگ’’سافٹ ویئر اپڈیٹ‘‘ کے ڈر سے گھروں پر ہی حاضر رہتے ہیں۔ہمیں معاف ہی رکھئیےگا، کیونکہ ڈاکٹر نے ہمیں کسی بھی قسم کی ’حاضری ‘یا’گوشت خوری‘ سے منع فرمایا ہے۔آپ لوگ لطف اُٹھائیے، باقی لوگ حلف اُٹھاتے ہی رہتے ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارم بھی دستیاب ہیں۔ جان جاناں کی تصویر ڈال دیجئے یا قربانی کے بکرے کی، داد ضرور وصول ہوگی۔ جو لوگ ہماری طرح ان ساری زحمت زدہ نعمتوں سے محروم ہیں، وہ میری طرف سے تہہ دِل سے ایک صاف و شفاف اور عمدہ عید مبارک قبول فرمائیں۔
[email protected]>