بلال فرقانی
سرینگر/ /عیدالاضحی کے متبرک ایام میں قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کیلئے قصابوںنے دیدہ دلیری کامظاہرہ کرتے ہوئے من مانے طریقے پر ریٹ مقرر کی تھی اور فی جانور قربان کرنے کیلئے 1500سے 2ہزار روپے وصولے۔ عید الضحیٰ کے موقعہ پر قصابوں نے مالکان قربانی کو سرینگر میں دو دو ہاتھوں سے لوٹ لیا اور کم حجم اور کم وزن والے جانوروں کی قربانی کیلئے 1500روپے کم از کم ریٹ مقرر کی جس کی وجہ سے نہ صرف مالکان قربانی کی جیبوں کو ہلکا کیا گیا ۔سرینگر بالخصوص سیول لائنز میں عید سے قبل ہی جہاں کوٹھداروں اور قصابوں نے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھااور حکومت کے نرخ ناموں کو بالائے طاق پر رکھا وہی عید الاضحی کے دو دنوں تک بھی قصابوں نے نہ صرف اپنی من مانی جاری رکھتے ہوئے مرضی کے مطابق دام وصول کئے بلکہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد گوشت کا حصہ کرنے کے دوران بھی الگ سے گوشت کا بڑا ٹکڑا لے لیا اور یوں اس طرح جانور کو ذبح کرنے کی قیمت 2ہزار سے زیادہ 2600تک پڑگئی ۔ سرینگر میں عید نماز کے بعد ہی مالکان قربانی قصابوں کی تلاش میںلگ گئے مگر قصاب تھے کہ منہ مانگی رقم سنتے ہی شہریوں کے پسینے چھوٹ جاتے ۔ شہریوں نے بتایا کہ جس نے زیادہ قیمت دی،قصاب اسی کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے نظر آئے اور یوں لگا کہ بھیڑوں کی قربانیاں نہیں بلکہ ذبح کرنے کیلئے بولی لگ رہی ہے۔
سیول لائنز کے ایک شہری محمد نعیم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ میں نے ایک مقامی قصاب سے عید سے ایک روز قبل800روپے فی جانور ذبح کرنے کیلئے قیمت مقرر کی تھی تاہم عید کے روز اس نے قیمت بڑھا کر 1500 روپے کردی‘‘۔انہوں نے کہا کہ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ مذکورہ قصاب نے ایک کلو فی جانور کے گوشت کا بھی تقاضا کیا۔ایک اور شہری نے مزید کہا کہ بعد میں علاقے میںقربانی کیلئے جانوروں کو ذبح کرنے والے قصابوں کا ایک گروپ نمودار ہوا اور1500روپے فی جانور کے حساب سے7500روپے5بھیڑوں کو ذبح کرنے کیلئے ادا کرنے پڑے۔ ایک اور شہری محمد ظفر نے بتایا کہ قصاب پیشگی رقم وصول کرنے کے ساتھ ساتھ پرچیاں بھی دیتے تھے،جن پر وہ فہرست درج ہوتی جن لوگوں کو قربانی کرنی تھی،اور اس کے بعد اس شخص کا نمبر آتا،جس کو وہ پرچی دیتے۔ سیول لائنز کے شیوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری شاہنواز احمد نے بتایا کہ اس طرح کی صورتحال انہوں نے کھبی نہیں دیکھی،ایک تو قصابوں کو منت سماجت کرنی پڑتی اور دوسرا یہ کہ1500روپے فی جانور سے کم کی ادائیگی قبول نہیں تھی۔ اہنواز کا کہنا ہے کہ بعد میں انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ از خودد جانوروں کو ذبح کرینگے،اور آخر کار یہی طریقہ اپنا یا گیا مگر2بھیڑوں کی ذبح اور انکی کھال اتارنے میں5گھنٹے صرف ہوگئے۔صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صحافی نے سماجی ویب سائٹ فیس بُک پر عید الضحیٰ کو تحریر کیا’’ قصاب لاپتہ،کاش میں نے خود ہی یہ ہنر سیکھ لیا ہوتا‘‘۔ سیول لائنز میں کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرنے والے لوگوں کی فہرست اتنی طویل ہوگئی کہ ہر ایک کی اپنی کہانی اور داستان تھی،گویا یہ لگ رہا تھا کہ قربانی نہیں بلکہ وہ جنگ پر جا رہے ہو۔ عادل احمد نے کہا کہ دن بھر7قصابوں کے پاس جانے کے بعد بھی نمبر نہیں لگا جبکہ میں منہ مانگی رقم دینے کیلئے بھی تیار تھا،اور بالاآخر دوسرے روز ہی قربانی کے جانوروں کو ذبح کیا۔ شہریوں نے بتایا کہ کم از کم سرکار کو چاہے تھا کہ وہ جانوروں کی ذبح کرنے کیلئے قیمت مقرر کرتے ہوئے سرکاری طور پر بھی قصابوں کا انتظام کرتے۔