رئیس احمد کمار
انسانی زندگی میں ہسپتالوں کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہسپتالوں کے بغیر ایک انسان معمولی سی تکلیف میں مبتلا ہو کر بھی یقینی طور پر اپنی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہاتھ دھو بیٹھ سکتا ہے۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر ہسپتال نہ ہوں گے تو دن میں ہزاروں کیا لاکھوں جانوں کا زیاں ہوگا۔ کوئی بھی شخص جب معمولی یا سنگین تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس کی واحد امید ایک ڈاکٹر ہی ہوتا ہے جو ہسپتالوں میں بیماروں کا علاج و معالجہ کرتا ہے۔ یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہسپتالوں کے بغیر گویا انسانی زندگی تقریباً ناممکن ہی ہے کیونکہ کوئی بھی انسان کسی بھی وقت کسی بھی تکلیف یا مرض میں ضرور مبتلا ہو سکتا ہے اور ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی ضرورت غالباً پڑ ہی جاتی ہے۔
گزشتہ روز مجھے ضلع ہسپتال گاندربل جانا پڑا کیونکہ میرے ساتھ ایک استاد ،جن کا تعلق جموں صوبہ کے ڈوڈہ ضلع سے ہے ا،ور جو پچھلے پندرہ برسوں سے گاندربل ضلع میں میرے ساتھ ہی تعینات ہے، کی والدہ محترمہ کسی عارضہ میں مبتلا ہوئی تھی اور پچھلے کئی دنوں سے وہ وہاں ہی ایڈمٹ تھی۔ اس لئے اس کی خبر پرسی کے لئے میرا جانا وہاں ہوا۔ یاد رہے یہ ضلع ہسپتال کی نئی اور جدید تعمیر شدہ عمارت ہے جو ضلع کے نامور ہوٹل ہارٹ سپارٹ سے چند ہی میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ پہلی بار مجھے وہاں جانا پڑا اور وہ بھی کسی دوست کی والدہ کی تیمارداری کے بہانے۔ ہسپتال کے صحن میں داخل ہوتے ہی اور ہسپتال کے اندر بھی جو کچھ بھی میں نے محسوس کیا وہ صرف لکھنے کیا دادو تحسین کے قابل بھی ہے۔ اس لیے میں ناچیز یہ چند سطور اس غرض سے تحریر کررہا ہوں تاکہ ایک تو گاندربل ضلع کی انتظامیہ خاص کر محکمہ صحت کی حوصلہ افزائی ہو جائے دوسرا وادی کشمیر کے باقی اضلاع میں قائم ضلع ہسپتالوں کے منتظمین بھی کچھ خاص اور مثبت اقدامات اٹھانے کی شروعات کریں گے۔
ضلع ہسپتال گاندربل کے صحن میں داخل ہوتے ہی مجھے یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ کیا واقعی میں کشمیر کے کسی سرکاری ہسپتال میں قدم رکھ رہا ہوں یا کہ یہ یورپ کا کوئی شاہی ہسپتال ہے۔ ہسپتال کے چاروں اطراف صحن میں صاف و شفاف اور تمام قسم کی آلودگی سے پاک نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہسپتال احاطے میں نہ کسی قسم کی گندگی اور نہ کسی طرح کا کوڈاکرکٹ نظر آتا ہے بلکہ پورے احاطے میں موجود تروتازہ اور سبز رنگ کا قدرتی فرش ہسپتال کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ وادی کشمیر کے دیگر ہسپتالوں میں جو بدبو محسوس ہوتی ہے اور صفائی ستھرائی کا جو فقدان پایا جاتا ہے گاندربل ہسپتال میں آپ ایسا نہیں پائیں گے۔ نہ وہاں بیماریاں پھوٹ پڑنے ہی خطرہ ہے اور نہ ہی انفیکشن ہو جانے کا احتمال۔
ہسپتال کے مین گیٹ سے لے کر اوپری منزل کے آخری وارڑ تک آپ کو کہیں بھی گندگی کے آثار نظر نہیں آئیں گے بلکہ صاف و شفاف ماحول میں مریض جلد ہی صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ دائیں طرف یا بائیں جانب تعمیر کیے گئے د رجنوں واشروم بھی اتنے صاف ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کیا یہ کبھی استعمال ہوئے بھی ہیں یا نہیں ۔ ہسپتال کے کسی بھی وارڑ میں آپ کو چپل جوتا وغیرہ پہننے کی اجازت نہیں ہے بلکہ دروازے کے باہر ہی نکال کر آپ اندر وارڑ میں رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کے ان مثبت اور قابل داد اقدامات کے نتائج وہاں آپ واقعی محسوس بھی کرسکتے ہیں۔ وارڑوں کے اندر بیڈوغیرہ اور دیگر نصب شدہ مشینری اچھی طرح کام کرتی نظر آتی ہے اور کسی بھی جگہ کسی قسم کی شکایت نہیں آرہی ہے بلکہ ہر وارڑ میں مریض ، تیماردار دونوں ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی تعریفیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ ہسپتال میں تعینات طبعی و نیم طبی عملہ بیماروں کی ہر ممکن مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان بھی مریضوں سے اس طرح پیش آتے ہیں کہ وہ اپنا دکھ درد بغیر کسی خوف یا ہچکچاہٹ کے بیان کردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرض کی تشخیص اور مریض اپنا علاج اچھی طرح کرواتا ہے۔ وہاں جا کے کسی بھی مریض کو پرائیویٹ کلنک یا پرائیویٹ لیبارٹری کی طرف رخ نہیں کرنا پڑتا ہے کیونکہ مریض تشخیص اور علاج سے وہاں ہی اچھی طرح مطمئن ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ جو ڈوڈہ ضلع کے دو اور اساتذہ صاحبان تھے انہوں نے بھی ہسپتال کے بہترین نظام کے بارے میں برملا اظہار کیا ۔ وہاں نہ مریضوںپر کسی قسم کا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور نہ ہی تیمارداروں کو ہی بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔ میری رائے ہے کہ اگر ایسے ہسپتالوں کو ماڈل ہسپتال کا درجہ دیا جاتا ہے اور ہر قسم کی جدید مشینری و آلات وہاں نصب کیے جاتے ہیں تو ضلع کی پوری آبادی مستفید ہو گی اور وادی کے سب سے بڑے طبی ادارے شیر کشمیر میڈیکل انسٹیٹیوٹ صورہ پر بھی دباؤ کم ہو جائے گا۔
قاضی گنڈ، کشمیر
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)