مفتی رفیق احمد
دوستی انسانی زندگی کی فطری ضرورت ہے۔ زندگی میں ڈھیر سارے رشتے وناطے جڑتے اور بچھڑتے ہیں۔ ان میں چند رشتہ ایسے ہیں جس کے بچھڑنے سے زندگی جہنم بن جاتی ہے۔کچھ رشتے ایسے ہیں جو انسان کی موت تک باقی رہتے ہیں۔ اب دوستی ایسا اٹوٹ رشتہ ہے جس سے انسان کو ایک نئی کرن اور نئی امیدوں کی صبح اپنے ساتھ لاتی ہے۔ اچھی دوستی سے انسان کی زندگی میں ایک نئی زندگی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ شام زندگی کے غموں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ ایک اچھا وسچا دوست وہ ہوتا ہے جو غموں اور تکلیفوں میں ساتھی ہو، اور وہ ہمیشہ اپنے دوست کے رازوں کا امین و محافظ ہوتا ہے۔ بہترین دوست وہی ہیں جو ہمیں اس دنیا کی تاریک اور بدصورت حقیقتوں سے بہاروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائیں۔ ہماری غلطی کو غلط اور اچھائی کو صحیح طریقے سے شناخت کرنے اور ہم پر ہمارے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے بے لوث ہو کر نصیحت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔‘‘(مسلم)
دوستی محض ایک سماجی ضرورت نہیں بلکہ دینی ومذہبی حاجت بھی ہے۔ اسی وجہ سے سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے‘‘۔ (سنن ابی داود) اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اچھے انسان کی صحبت سے اچھائی اوربرے انسان کی صحبت سے برائی حاصل ہوتی ہے۔اس لیے کسی سے دوستی کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ دوست دیندارہو ورنہ بُری صحبت تباہی کا باعث ہوگی۔ فارسی میں مثل مشہور ہے کہ صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالح ترا طالح کند یعنی نیک کی صحبت و دوستی تجھے نیک بنادیں گی اور برے کی دوستی ورفاقت تجھے برا واوباش بنا دیں گی۔ ایسے ایک پھول اور مٹی کا واقعہ فارسی کے مشہور ومعروف ادیب وصوفی حضرت سعد الدین شیرازی نقل کرتے ہیں کہ
گِلے خوش بوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ مخدومے بہ دستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم
بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
یعنی:ایک دن حمام میں، ایک مہربان کے ہاتھ سے مجھ تک ایک خوشبودار مٹی پہنچی۔میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری (دونوں اعلیٰ خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں ،میںمست ہوا جاتا ہوں۔اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے،اور ہمنشیں کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا ہے وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو جرائم ہم مشاہدہ کررہے ہیں، ان کے پیچھے کہیں نہ کہیں بری صحبت اور بد رفاقت کا بھی ضرور دخل ہے۔ آج ہماری نئی نسل ہمارے وہم وگمان سے کہیں دور ہیں۔ ان کی دنیا ہی الگ ہے۔ انہیں ہماری اخلاقی باتیں ایسے ہی لگتی ہیں ۔جیسے علامہ اقبال نے کہا ؎
سنے گا اقبال کون ان کو یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں
یہی حال ہے ہماری نئی نسل کا۔ وہ ہمارے خیالات کو دقیانوسیت اور قدامت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں۔ہماری اولاد کی صحبتوں ورفاقتوں اگر جائزہ لیا جائیں تو ہم سب کو ماتم کرتے ہوئے سر پیٹ پیٹ کے رونا ہوگا کہ کیسے کیسے اوباش و بدمعاش اور لوفروں کے ساتھ ہمارے بچے دن رات رہتے ہیں۔ پھر کیسے نیک نامی ہوگی۔اس لئے چاہیے کہ ہم سب سے پہلے ہماری اولاد کی صحیح اسلامی تربیت کریں پھر جب وہ بڑے ہو جائیں تو نیک اور صالح دوستوں کی صحبت ورفاقت اختیار کرنے کی ترغیب وتلقین کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ان پر اور انکے دوستوں پر نظر رکھیں۔ اس سے دنیا و آخرت کی بھلائی بھی ہے اور بہت سارے مشکلات سے چھٹکارا بھی۔ اگر اس کے بر عکس ہم تھوڑا بھی تغافل وتساہل برتیںگے تو نتیجہ بہت بُرا اور پرخطر ہوگا۔
دوست ایک انسان کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس لئے چاہیے کہ نیک اور صالح دوستوں سے دوستی کریں۔ ورنہ بروں کی دوستی تمہیں بُرا بنانے کے ساتھ بدنام بھی کردے گی۔ بدنامی کے ساتھ آخرت کی زندگی میں حسرت وندامت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گی۔ جیسے کہ قرآن حکایتاً نقل کرتا ہے کہ وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتابیشک اس نے مجھے بہکادیا ،میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے(سور ئہ فرقان:28-29)
ہم اس مختصر مضمون کو مولائے کائنات شیر خدا، امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سبق آمیز نصیحت پر ختم کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ:فاجر سے بھائی بندی نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ تیرے لئے خودکو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے، اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے اورجھوٹے آدمی سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گی، وہ تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا۔ اللہ تبارک وتعالی ہمیں اور ہمارے دوستوں نیک وصالح بنائے۔ آمین