ڈاکٹر عریف جامعی
نظریۂ محبت کو علماء اور حکماء نے مختلف پیرایوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین نفسیات کی رو سے محبت ایک عظیم صحتمند جذبہ ہے۔ ارتقائی نقطۂ نگاہ کے حامی محبت کو فطری انتخاب (نیچلرل سیلیکشن) کا ایک جزو لاینفک مانتے ہیں۔ کئی لوگ محبت کو ایک ناقابل بیان جذبے سے تعبیر کرتے ہیں۔ مذہبی (روحانی) مفکرین محبت کو خدا کا ایک تحفہ سمجھتے ہیں۔ ابراہام ماسلوؤ نے اس جذبے کو انسانی شخصیت کی تکمیل کے لئے ایک اہم کڑی کے طور پر پیش کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جب شوق اپنی انتہاؤں کو چھونے لگتا ہے اور جب یہ شوق اپنی حدود قیود طے کرنے کے لئے عقل و فکر کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے منزل مقصود کا تعین کرتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ انسان وادئ اُلفت کا ایک حقیقی مسافر بن گیا ہے۔ تاہم افلاطون نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انسان کے عام (نچلے) داعیات اور جذبات عقل و فکر کے تابع رہیں، اسی میں انسان کی خیر ہے، کیونکہ یہی ایک منضبط روح کی پہچان ہے۔
منضبط روحوں کی اس فہرست میں پیغمبران کرام کو چوٹی کا مقام حاصل ہے۔ انسانیت کے ان گلہائے سرسبد میں یہ انضباط دراصل اس ہم آہنگی اور توازن کا نتیجہ ہوتا ہے جو وہ رب تعالی کے فضل و کرم سے عقل و دل کے درمیان قائم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر قول و فعل حقیقت نفس الامری کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی عقل و نظر کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے خیرہ ہوتی ہے اور نہ ہی ان کا دل کبھی ہمت شکن واقعات سے خوف و ہراس میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایسا اس لئے نہیں ہوتا کہ خدا کے یہ برگزیدہ بندے مافوق الفطرت قویٰ کے مالک ہوتے ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ پیغمبران کرام خدا کی راست نگرانی میں ہوتے ہیں جس سے ایک طرف ان کی معصومیت (معصوم عن الخطاء ہونے کی صفت) بنی رہتی ہے اور دوسری طرف ان کے معاندین اور مخالفین ان کے خلاف کوئی انتہائی اقدام کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
قرآن اگرچہ بار بار عقل و فکر کی بات کرتا ہے، لیکن منضبط اور مرتبط سوجھ بوجھ کا مرکز فؤاد کو قرار دیا گیا ہے۔ اب فؤاد کو دل سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یا ترجمے کے لئے لفظ ’’دل‘‘ فؤاد کے لئے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن دل اصل میں انسانی شخصیت کا محل (لوکس) ہے اور یہ (یا اس کے اندر) غیر مادی اور مجرد صلاحیت یا قوت (موجود) ہوتی ہے۔ قرآن میں دل کے ساتھ ساتھ اور اس سے ہٹ کر فؤاد کا استعمال دیکھ کر پتہ چلتا ہے یہ حواس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کو چھان پھٹک کر اس کی تحلیل اور تجزیہ کرتا ہے۔ اس طرح سے فؤاد کو دل اور عقل کی مشترکہ صلاحیت کہا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے دوران مختلف مشاہدات کے بارے میں قرآن کا بیان ہے: “دل (فؤاد) نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر) نے دیکھا۔” (النجم، ۱۱) سیدنا موسیٰ کی والدہ کے فؤاد کی بے قراری بھی اسی وقت دور ہوئی جب ان کے دل کو اللہ تعالی نے مضبوط کیا۔ اس بارے میں قرآن کا ارشاد ہے: “موسیٰ کی والدہ کا دل بے قرار ہوگیا، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے”۔ (القصص، ۱۰) ظاہر ہے کہ فؤاد اس لئے بے قرار تھے کہ بیٹے کو جو خطرات لاحق تھے ان کا (عقلی) احساس اور ادراک حضرت موسیٰ کی والدہ کو خوب تھا۔ تاہم اطمینان دل کو دلایا گیا، کیونکہ عقل عام (کامن سینس) اس دلاسے، جس کے لئے ابھی ظاہری اسباب پیدا نہیں ہوئے تھے، کو سمجھنے سے قاصر تھی۔
واضح ہوا کہ اطمینان دل کو ملتا ہے اور جو دل ہدایت کے نور کو کھو دیتے ہیں، وہ اندھے ہوجاتے ہیں، اس کے باوجود کہ ایسے لوگوں کی آنکھوں کی بصارت جوں کی توں موجود ہوتی ہے۔ (الحج، ۴۶) یہی وجہ ہے کہ سمع، بصر اور فؤاد کی فطری صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہے “قلب سلیم” یعنی سلامتی والا دل یا محفوظ دل! ایسے دل میں یہ فطری صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ یہ کفر و شرک کو قبول نہیں کرتا۔ یہی دل سلامتی کے راستے یعنی دین اسلام کو قبول کرتا ہے جو اس کے لئے سلامتی کے گھر (دارالسلام، جنت) میں داخلے کا سبب بنتا ہے۔ یہ سلامتی جو رب تعالی (السلام) کی خاص صفت ہے، ایسے شخص کو کچھ اس طرح گھیر لیتی ہے کہ وہ یکسو (حنیف) ہوکر دین حق کی سربلندی کے لئے سرگرم ہوجاتا ہے۔ یہ یکسوئی اس کے لئے مزید شرح صدر (دل کی کشادگی) کا باعث بنتی ہے۔ اس بارے میں قرآن کا ارشاد ہے: “سو جس شخص کو اللہ ہدایت دینا چاہے، اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے۔” (الانعام، ۱۲۵)
قلب سلیم ہی انسان کے لئے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ کس چیز کو محبوب رکھے اور کسے نہیں۔ یہ دراصل دلی رد و قبول کا اعلی ترین معیار بن جاتا ہے۔ اس کے ذریعے ہی اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ آیا ایمان کی تکمیل ہوئی ہے کہ نہیں۔ اس بارے میں نبیؐ کا ارشاد ہے: “جس شخص نے اللہ کے لئے (کسی سے) محبت کی، اللہ ہی کے لئے (کسی سے) عداوت کی، اللہ کے لئے (کسی کو کچھ) دیا اور اللہ ہی کی خاطر (کسی کو دینے سے) ہاتھ روک لیا، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کی۔” (ابو داؤد) ظاہر ہے کہ پیغمبران کرام ایمان و یقین کے اعلی ترین درجے پر فائز ہوتے ہیں، تاہم اس دل کے اطمینان کے لئے یہ ہستیاں خدائے برحق کی طرف رجوع کرتی رہتی ہیں۔ اس بارے میں قرآن نے سیدنا ابراہیم کا رب کے حضور دست بدعا ہونے کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے: “اور جب ابراہیم نے کہا کہ میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ (جناب باری تعالی نے) فرمایا: کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا: ایمان تو ہے لیکن دل کی تسکین ہوجائے گی۔” (البقرہ، ۲۶۰) البتہ بندۂ مؤمن کا دل ہمیشہ رب تعالی کی محبت سے سرشار رہتا ہے۔ (البقرہ، ۱۶۵) تاہم محبت کی اس شدت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بندے کی حالت میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا۔ دراصل ایسے شخص کی زندگی کا لحظہ لحظہ رب کی رضا میں صرف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے رب تعالی کی محبت کا معیار یوں بیان کیا ہے: “کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا۔” (آل عمران، ۳۱) وقت کے رسول کی اطاعت کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان ولایت یعنی دوستی کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ یہی تعلق اس چیز کا سبب بن جاتا ہے کہ خدا بندے کو سرکشی کی تاریکیوں (ظلمات) سے نکال کر ہدایت کی تجلّیات (نور) میں لے آتا ہے۔
اس ضمن میں ہم اس بات سے باخبر ہیں کہ سیدنا ابراہیم کو رب تعالی نے نے اپنا دوست (خلیل) قرار دیا تھا (النساء، ۱۲۵)، اور آپ کو قلب سلیم (الصفٰت، ۸۴) کی عنایت سے بھی نوازا گیا تھا۔ اس لئے آپ کی خدا کے لئے محبت کا خاصہ یہ تھا کہ توحید اور حنیفیت آپ کی شناخت بن گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مقدس نے آپ کی پوری حیات کو بلیغ ترین الفاظ میں بیان کیا ہے: “آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ (الانعام، ۱۶۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ صلوٰۃ، یعنی خدا کی یاد آپ کی زندگی کا منشور تھا، جبکہ قربانی آپ کی حیات کا منتہائے کمال تھی۔ یہ بات نہایت ہی دلچسپ ہے کہ رسالتمآبؐ کو جو “خیر کثیر” عطا فرمایا گیا اس کو بھی صلوٰۃ اور قربانی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: “(اے نبی) ہم نے تمہیں خیر کثیر عطا کردیا۔ پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔” (الکوثر، ۱، ۲)
ظاہر ہے کہ نماز سے انسان کا رب تعالی کے ساتھ محبت پر مبنی تعلق بنا رہتا ہے اور قربانی اسی تعلق کی انتہا ہوتی ہے۔ اسی تعلق کی گہرائی سے انسان کے بندگان خدا کے ساتھ تعلق کی نوعیت کا تعین ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ افقی تعلق اگرچہ ایک باطنی تعلق ہوتا ہے، تاہم بندوں کے ساتھ عمودی تعلق بالکل ظاہر اور واضح ہوتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ معاشرہ (سوسائٹی) ایک معمل (لیبارٹری) ہے جس میں رشتوں کے ذریعے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ سیدنا ابراہیم نے یہ دونوں قسم کے تعلق بڑی خوبی سے نبھائے۔ اپنے والد کے ساتھ اس تعلق کو آپ نے آخر تک بنائے رکھنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس وقت بھی باپ کے ساتھ خیرخواہی نبھانا چاہی جب وہ آپ کو اس بنا پر گھر سے بے گھر کر رہا تھا کہ آپ اس کے جھوٹ پر مبنی نظریۂ زندگی یعنی دین سے بیزار تھے۔ انتہائی بے بسی کے عالم میں بھی آپ سلام کہہ کر اپنے والد سے رخصت ہوئے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “کہا: اچھا تم پر سلام ہو، میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔” (مریم، ۴۷)
تاہم جس محبت کی بنیاد توحید پر ہو، اس کو شرک کی کسی آمیزش سے داغدار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا ابراہیم کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ خدا کی خدائی میں کسی کو شریک کرنے والے خدا کے دوست نہیں ہوسکتے، تو آپ نے ان تمام لوگوں سے برأت کی اور ان کے ساتھ ہر طرح کا تعلق توڑنے کے لئے تیار ہوئے۔ اس معاملے کی سنگینی کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ سیدنا ابراہیم کے ہر عمل کو مؤمنین کے لئے ایک اسوہ یعنی قابل عمل نمونہ قرار دیا گیا ہے سوائے اس عمل کے کہ انہوں نے خدا کے باغی اپنے والد کے لئے استغفار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ (الممتحنہ، ۴ و التوبہ، ۱۱۴) تاہم یہ اصول دین حق کی مجموعی حکمت کے عین مطابق ہے جس میں والدین کے ساتھ ہر قسم کے نیک سلوک کی تاکید کی گئی ہے، سوائے اس کے کہ “خدا کی نافرمانی کرکے ان کی فرمان برداری کی جائے؛ لا طاعت لمخلوقٍ فی معصیت الخالق۔” اسی بات کو ایک سے زیادہ جگہوں پر قرآن نے واضح کیا ہے۔ (العنکبوت، ۸)
اس طرح سیدنا ابراہیم نے اپنی حیات کا ہر لحظہ خدا کی منشا اور مرضی کے مطابق صرف کیا۔ آپ کی حیات طیبہ دراصل خدا کی شدید محبت کا ایک مرکب تھی، جس کا اظہار خدا کی یاد یعنی نماز اور خدا کے لئے سرفروشی یعنی قربانی کی صورت میں ہوا۔ اپنے وطن میں مصائب جھیلنا، وطن سے مہاجرت، مرکز توحید (کعبہ) کی تعمیر نو، اپنے بیٹے (اسمٰعیل) کو اس گھر کی نذر کرنا، طواف کعبہ، سعی بین صفا و مرویٰ، وقوف عرفات اور حج کے دیگر مراسم دراصل اسی محبت خداوندی اور راہ خدا میں سرفروشی و وارفتگی کی دلیل ہے، جو آپ کو گہہ الفت کا ایک نہ تھکنے والا راہی بناتی ہے، جس کا واحد مقصد حیات حق کی شہادت ہوتی ہے!
(ای۔ میل: [email protected])
���������������������