ڈاکٹر عریف جامعی
انبیاء کرام کا سلسلۃ الذہب سیدنا آدم ؑ سے شروع ہوا اور محمدؐپر اس کی تکمیل ہوئی۔ ہر ایک نبی کو مبعوث کرنے کی غرض و غایت یہی بیان کی گئی ہے کہ ہر نبی انسان کو رشد و ہدایت کا وہ سبق یاد دلائے جو مجموئی طور پر پوری انسانیت کو عالم ارواح میں دیا گیا تھا اور جو ہر نبی سے اپنی امت کو اپنے دور میں ملتا تھا۔ اگرچہ سیدنا آدم ؑکے دنیا سے چلے جانے کے بعد ایک خاص وقت تک انسانیت نے یہ سبق یاد رکھا، لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ انسان کے فکر میں پراگندگی، قول میں کذب اور عمل میں برائی پیدا ہوچکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح ؑ،جنہیں آدم ثانی بھی کہا گیا ہے، نے ایک مدت دراز تک انسانیت کو راہ راست پر لانے کی تگ و دو کی۔ تاہم یہاں تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنے فکر و عمل اور قول و فعل میں اس قدر تسفل کا شکار ہوچکا تھا کہ تورات کے بیان کے مطابق فقط اسی افراد سفینۂ نوح میں سوار ہوکر راہ نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔
تاہم رب تعالی نے اپنے وعدے (البقرہ،38) کے مطابق انبیاء کرام بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انسان، جسے فکر و عمل کی آزادی دی گئی تھی، تخلیق کائنات کے ساتھ ساتھ خدا کی الوہیت اور اپنی عبدیت کے تئیں اختلاف میں پڑ جاتا تھا۔ قرآن نے انسان کے اس اختلاف اور انتشار میں پڑنے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے: “دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے، اللہ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔” (البقرہ،213)
ظاہر ہے کہ یہ اختلاف فکر سے شروع ہوکر انسان کے قول و فعل میں سرایت کر جاتا تھا اور پورے انسانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا۔ فکر کی سطح پر یہ اختلاف شرک اور الحاد کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا، جبکہ قول و فعل میں یہ اختلاف کذب بیانی، فاحشات، لغویات اور ظلم و عدوان کی صورت میں انسانیت کے لہلہاتے چمن کو پژمردگی کا شکار کرتا تھا۔ یعنی جب موحدانہ فکر سکڑ جاتی تھی تو انسان مظاہر فطرت کو الوہیت اور ربوبیت کی مسند پر بٹھاتا تھا۔ اس فکری افتراق اور انتشار کا راست نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ انسانی معاشرہ اونچ نیچ اور چھوت چھات کے گورکھ دھندے میں پھنس جاتا تھا۔ اگر مارکسی جدلیات کی زبان استعمال کی جائے تو انسانی معاشرہ پورڑوا اور پرولتاریہ طبقات میں بٹ جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال خواتین کے لئے بھی سم قاتل ثابت ہوتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کا ایک معتدبہ طبقہ غلامی کی دلدل میں بھی دھنس جاتا تھا۔
انسانی تاریخ کے مختلف مراحل پر اس صورت حال کے سد باب کے لئے رب تعالی نے مختلف پیغمبر بھیجے، جو انسانی آبادیوں کو راہ راست کی دعوت دیتے تھے۔ تاہم جب انسانیت معاشرتی ترقی کی ایک خاص سطح کو چھونے لگی، جسے ہم نیم عالمگیریت (سیمی گلوبلائزیشن) کہہ سکتے ہیں، تو رب کائنات نے سیدنا ابراہیم کو دنیا کا امام بنایا اور دعوت توحید کو آباد دنیا کے گوشے گوشے تک پھیلا دیا۔ لیکن یہاں پر اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ انسانیت ابھی تاریخی دور میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی قوم میں کوئی مصلح قوم آکر انفرادی سطح پر حکمت و دانش کا پیغام دیکر قوم کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا، تو اس مصلح کے انتقال کے ساتھ ہی اس کی سکھائی ہوئی حکمت کو اساطیری ادب میں شامل کیا جاتا تھا اور اس کو مصلح کی سطح سے اٹھاکر خالق کی سطح پر بٹھایا جاتا تھا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابوالانبیاء (سیدنا ابراہیم) نے سیدالانبیاء ؐکی بعثت کے لئے جو دعا کی وہ، رب تعالی کی مشیت کے تحت اسی تاریخی دور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور یہ تاریخی دور آخری نبی ؐ کے ساتھ ہی شروع ہونے والا تھا۔
اس مسئلے کو امام غزالی کی اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے جو انہوں نے “تہافت الفلاسفہ” میں بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علت (کاز) کا فوری طور پر اثر پیدا ہونا یا نتیجہ (افکٹ) نکلنا قطعاً ضروری نہیں۔ علت کا اثر موخر (ڈلے) بھی ہوسکتا ہے اور ہو جاتا ہے۔ چونکہ رب تعالی مسبب الاسباب یا فلسفے کی زبان میں “کاز لیس کاز” یا “فرسٹ کاز” ہے، اس لئے سیدنا ابراہیم کی دعا کا اثر ۰۰۵۲ سال بعد تب ظاہر کیا گیا جب دنیا تاریخی دور میں داخل ہونے والی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جو دعا سیدنا ابراہیم نے نبی ؐکی بعثت کے لئے فرمائی اس میں نہایت مختصر الفاظ میں دراصل انبیاء کرام کی ابتدائے آفرینش سے بپا کی گئی “تحریک تزکیہ” کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دعا کے الفاظ ہیں: “اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج، جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔” (البقرہ،129)
دراصل انسان کو زمین پر بحیثیت خلیفہ بھیج کر رب کائنات کا منصوبہ یہی تھا کہ اس کی جانچ کی جائے اور اس کو رب کی ابدی دنیا یعنی جنت کا مکین بنایا جائے۔ اس جانچ کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ حسن عمل کے ذریعے کون جنت میں جانے کا استحقاق پیدا کر لیتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “جس (اللہ) نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے۔” (الملک،2) حسن عمل کے لئے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ تزکیہ یعنی پاکیزگی ہے۔ نبیؐ کی چہارگانہ ذمہ داری میں اسی پاکیزگی کو زور دیکر بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ “تلاوت آیات” سے دراصل اسی پاکیزگی کی بنیاد قائم ہوتی ہے، “تعلیم کتاب” سے بھی پاکیزگی عمل بن کر ایک تناور شجر کی طرح برگ و بار لاتی ہے اور “تعلیم حکمت” سے حسن عمل کی عمارت کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس طرح نبیؐکا مخاطب اور مدعو ایمان اور اسلام کے بعد احسان کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔ اس بات کو حدیث جبرائیل سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس میں حضرت جبرائیل جب ایمان اور اسلام کے بعد نبی ؐسے احسان کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو نبی ؐجواب دیتے ہیں: “ان تعبد اللہ کانگ تراہ، فان لم تکن تراہ، فانہ یراک،” یعنی احسان یہ ہے کہ “بندہ اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسے کہ وہ اسے دیکھ رہا ہو، اگر (اس درجے کو نہ پہنچ سکے) وہ اسے نہ دیکھ سکے، پھر بھی وہ (اللہ) اسے دیکھ رہا ہے!”
واضح ہوا کہ نبی ؐکے مبارک ہاتھوں سے انجام پانے والا یہ عمل اسی صورت میں بار آور ہوتا ہے جب انسان دل کی کامل یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ کو آپ ؐکے سپرد کرتا ہے۔ یہ عمل زبانی جمع خرچ سے انجام پاتا ہے اور نہ ہی پارسائی کے جھوٹے دعوؤں سے۔ اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: “کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی (کی ستائش) خود کرتے ہیں؟ بلکہ اللہ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے۔” (النساء، 49) کبھی کبھی انسان خود کو کوئی بڑی چیز سمجھ کر بھی پاکیزگی کے بڑے دعوے کر بیٹھتا ہے۔ لیکن رب تعالی یہاں پر بھی انسان کو اپنی اصلیت سے آگاہ کرکے اس سراب سے نکالتا ہے۔ خدا کا اس بارے میں ارشاد ہے: “پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو، وہی پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔” (النجم، 32) واضح ہوا کہ تزکیہ کے حصول کے لئے انسان کا زندگی، اس کی ابتداء اور اس کے انجام کے تئیں سنجیدہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسی سنجیدگی کا دوسرا نام تقویٰ ہے۔ یعنی وہی انسان حقیقت میں پاکیزگی کے حصول کے لئے سعی کرے گا جو زندگی اور اس کے تقاضوں کے بارے میں سنجیدہ ہوگا۔
ایسا شخص ضرور یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ پاکیزگی یعنی تزکیہ کہاں سے اور کیوں کر حاصل کیا جا سکتا ہے؟ چونکہ ایسے شخص کو خدائے قدوس کا قرب درکار ہوتا ہے، جس کے لئے طہارت اور تزکیہ بنیادی شرائط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پاکیزگی خدا کے پاکیزہ کلام یعنی قرآن کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے، جو منزہ (پاکیزہ) ذات خداوندی نے اپنے آخری پیغمبرؐپر نازل فرمایا اور انہیں مزکی (پاک کرنے والا) کا درجہ عنایت فرمایا ہے۔ اور تو اور اس کلام کو پاکیزہ روح (روح القدس، جبرائیل) نے آپ ؐ کے قلب مبارک پر نازل فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے ساتھ “مجد” اور “کرم” کی صفات جوڑ دی گئی ہیں، یہ “لوح محفوظ” اور “کتاب مکنون” میں محفوظ ہے اور اس تک فقط “مطہرین” کی رسائی ہی ممکن ہے۔ اس سلسلے قرآن میں خدا کا ارشاد ہے: “بلکہ یہ قرآن ہے ہی بڑی شان والا۔ لوح محفوظ میں (لکھا ہوا)۔” (البروج،21-22) اور “کہ بے شک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے۔ جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے۔ جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔” (الواقعہ، 77-79)
ظاہر ہے کہ پاکیزہ کلام کے ساتھ جب بندۂ مومن مزکی (پاکیزگی کی راہ دکھانے والے)، یعنی نبی ؐ کے ذریعے تعلق جوڑتا ہے تو اس کی شخصیت نکھر جاتی ہے اور وہ ابدی کامیابی اور کامرانی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اب جو شخص کتاب اللہ اور رسول اللہ ؐ سے بے اعتنائی برتے گا، وہ ابدی خسران میں مبتلا ہوگا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “جس نے اسے پاک کیا، وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا، وہ ناکام ہوا۔” (الشمس،9-10) یہاں پر یہ بات مستحضر رہنی چاہئے کہ پاکیزگی کا تعلق انسانی ابدان کے ساتھ ساتھ انسانی اذہان، ارواح اور افعال کے ساتھ بھی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ بدن کی صفائی ستھرائی کا راست اور خوشگوار اثر انسانی ذہن پر پڑتا ہے، لیکن ذہن اور روح کی اصل پاکیزگی ان نظریات کے ساتھ وابستہ ہے جن کی تعلیم نبی ؐقرآن کے ذریعے دیتے ہیں۔ اسی پاکیزگی اور پارسائی سے روح و بدن میں انضباط پیدا ہوجاتا ہے اور انسانی شخصیت سے صالح یا پاکیزہ اعمال کا صدور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ؐ کو اس چیز کی ذمہ داری تفویض کی گئی کہ آپؐ لوگوں کو اپنے اموال راہ خدا میں خلق خدا کی بہبود کے لئے خرچ کرنے کی ترغیب دیں اور ان کی “تطہیر” اور “تزکیہ” کا اہتمام فرمائیں: “آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجیے، جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کردیں۔” (التوبہ، 103)
تاہم پاکیزگی یعنی تزکیہ کا یہ تصور فقط منبر و محراب اور مجالس علم تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ ایک تحریک بن کر پورے معاشرے کی تطہیر کا باعث بنتا ہے۔ ہر عمل کرنے والا اپنے دائرے میں حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا ہر عمل پاکیزہ ہو۔ یہ تصور دنیائے معیشت، جو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ؐ نے اعلان فرمایا کہ “ایک سچا اور امانت دار تاجر (آخرت میں) نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔” (الترمذی) اس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء کرام کی “تحریک تزکیہ” کو صدیقین اور شہداء نے ہی عام کیا اور سیدالانبیاء ؐنے اس تحریک کی تکمیل فرمائی، کیونکہ خدا کی ابدی دنیا یعنی جنت میں انسان کے داخلے کا دارومدار ہی تزکیہ پر ہے۔ رب تعالی آخرت میں صرف انہی لوگوں کو پاک کرکے جنت میں داخل فرمائے گا جنہوں نے خود کو اس تحریک کے ساتھ وابستہ کیا ہوگا۔ قرآن کے الفاظ میں: “بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا، نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا۔” (آل عمران، 77)
(مضمون نگار محکمہ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
ای میل۔[email protected]
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)