ڈاکٹر اویس احمد
اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سبھی صحافیوں کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی صحافتی ادارے میں کام کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ فری لان سنگ صحافت کا سہارا لے کر فری لان سر صحافیوں کی تعداد بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔لیکن فری لان سنگ صحافت کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ صحافت کے معیارات کو پس پست ڈال دیا جائے۔ دیکھا جائے تو صحافتی ادارے میں کام کرنے والے صحافی سے زیادہ ذمہ داریاں تو فری لان سر صحافی پر عائد ہوتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ فری لان سنگ صحافت میں صحافی کو حد درجہ محتاط رہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ سوشل میڈیا کے خود ساختہ صحافی صحافت کی ابجد سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ اول یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر رونما ہونے والا واقعہ خبر کے زمرے میں شامل نہیں ہو سکتا ہے۔اس ضمن میں ہمارے پاس ایک بڑی مثال موجود ہے کہ’’ کتا انسان کو کاٹے یہ خبر نہیں ہے، انسان کتے کو کاٹے یہ خبر ہے‘‘ ۔ حالاں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے،بلکہ اس میںخبر کا’ غیر معمولی پن‘ اور’ انوکھا پن‘ مضمر ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر خود ساختہ صحافی ہر ایک واقعے کو خبر تصور کرتے ہیں جو کہ صحافت کے حوالے سے پہلی بنیادی غلطی ہے۔ نتیجے کے طور لوگوں کے ذاتی مسائل کو بھی صحافت کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بھی مہیا کرا دیا گیا جہاں لوگ اپنے نجی مسائل کو بھی عوامی مسائل کی طرح بیان کرتے نظر آتے ہیں اور خود ساختہ صحافیوں کو گمان ہوتا ہے کہ اُنھوں نے صحافتی فرائض انجام دئیے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مسائل کو صحافت میں جگہ دینا گویا صحافت کے اقدار اور معیارات سے سمجھوتہ کرنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے صحافی کسی بھی واقعے کو خبر تصور کرنے سے پہلے یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’خبر ایسی ہو جسے عوام کو جاننا چاہیے۔‘‘کسی کے ذاتی معاملات میں لوگوں کو کیوں کر جاننے کی خواہش رہے یا اُنھیں جاننا چاہیے۔؟ایسے نہ جانے کتنے واقعات کو خبر بناکر پیش کیا جاتا ہے جو خبر کے زمرے میں شامل ہی نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ناتجربہ کار صحافی کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہاتھ میں مائک لے کر رپورٹنگ شروع کر دیتے ہیں۔ اُنھیں اس بات کا خیال ہی نہیں رہتا ہے کہ جس معاملے کو وہ خبر بنا کر پیش کر رہے ہیں کہیں وہ کسی کے وقار کو اپنی ناتجربہ کار صحافت کی بھینٹ تو نہیں چڑھا رہے ہیں۔اُنھیں اس بات کا بھی خیال رہنا چاہیے کہ کہیں اُن کی ناتجربہ کار صحافت کی وجہ سے کوئی شخص مجبور ہوکر میڈیا کے سامنے اپنا ذاتی معاملہ پیش تو نہیں کر رہا ہے۔لہٰذا صحافت کے پہلے اصول کو ملحوظ رکھنا لازم ہے کہ واقعہ یا معاملہ’خبر‘ کے لائق ہو۔دوسرامسئلہ ’بیان واقعہ‘ کا ہے۔
صحافت میں کسی بھی واقعے کو خبر کے طور بیان کرنے کیلئے ایک مخصوص صحافتی بیانیہ موجود ہے،جس سے صحافی کو واقف ہونا لازم ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض اچھی خبریں بیانیہ کی نذر ہو جاتی ہیں۔اسی لئے سٹر بانڈ کا کہنا ہے کہ ’’کوئی واقعہ خبر نہیں، اُس کا بیان خبر ہے۔‘‘اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحافت کا اپنا ایک مخصوص زبان و بیان ہوتا ہے جس کے معیارات سے سمجھوتہ کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہوتی ہے۔یعنی کسی بھی خبر کو عوام تک پہنچانے کیلئے کس طرح کی زبان کا استعمال ہونا چاہیے، صحافی کو اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ کیوں کہ مناسب اور موزوں الفاظ کے استعمال ہی سے خبر کی بہتر ترسیل ممکن ہے۔سوشل میڈیا پر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ خود ساختہ صحافی صحافتی زبان تو دور بلکہ درست زبان بھی نہیں بول پاتے ہیں۔اکثر اردو الفاظ غلط تلفظ کے ساتھ بولے جارہے ہیں۔اسی طرح جملوں کی ساخت بھی درست نہیں ہوتی ہے۔
مجھے بذات خود ان چیزوںکا مشاہدہ ہے کہ ناتجربہ کار صحافی کس طرح غیر معیاری زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک اورمسئلہ جڑا ہے کہ کئی لوگوں کی غلط بیانیوں(جس میں نازیبا الفاظ اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا گیا ہوتا ہے) کو بھی رپورٹنگ کا حصہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ایڈیٹنگ کے دوران غیر ضروری عناصر کو حذف بھی کیا جا سکتا ہے۔صحافت کا ایک مقصد عوام کی تربیت بھی ہے۔اس طرح صحافت اخلاقیات کا بھی تقاضا کرتی ہے؛لیکن جہاں اخلاقیات کا دامن صحافی کے ہاتھ سے چھوٹ جائے، تو صحافتی اقدار اور معیارات زمین بوس ہونے لگتے ہیں۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس طرح کی غلطیاں سوشل میڈیا صحافیوں سے نادانستہ طور ہو جاتی ہیں، بلکہ وہ ویوز کے پیش نظر کسی بھی غلط بیانی کو راہ دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے ہیں ۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا صحافی اکثر دوسروں کے چبائے ہوئے نوالے ہی چبائے جاتے ہیں۔اکثر صحافی خبروں کے معاملے میں سرقہ بازی سے کام چلاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ یعنی ایک ہاتھ میں موبائل پکڑ کر کسی بھی خبر رساں ادارے کی خبر کا سرقہ یا نقل کیا جاتا ہے ۔کسی خبر رساں ادارے کی خبر کی سرقہ بازی تو کسی حد تک قبول ہے،لیکن کسی کے فیس بک پوسٹ یا سنی سنائی باتوں کو خبر کی صورت میں عوام تک پہنچانا صحافتی اخلاقیات کے بالکل منافی ہے جس کے نتیجے میں خبر کا ایک ہی رُخ سامنے آنے کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ صحافی محض سرقہ بازی سے کام لے کر خبر کی چھان بین کے بغیر ہی حقیقت کو پوری طرح بیان کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اصل حقیقت تک رسائی پانے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں۔بغیر کسی چھان بین اور خبر کے اصل ماخذات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ اب صحافت ہی سے بے زار نظر آتے ہیں۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی معاملے میں محض ایک فریق کو بات رکھنے کا موقع فراہم کیا گیا اور دوسرے فریق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، نتیجے کے طور دوسرا فریق ناچاہتے ہوئے بھی میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھنے کیلئے منت سماجت کرتے دیکھا گیا ہے تاکہ اُس کے تئیں عوام میں کوئی انتشار یا غلط فہمی پیدا نہ ہوسکے۔حقیقت کا محض ایک رخ بیان کرنے سے کسی بھی شخص کے تئیں نفرت کے جذبات پیدا کیے جا سکتے ہیں۔اس سے ایک طرف ہمارے خود ساختہ صحافیوں کی لاعلمی کا پتا چلتا ہے تو دوسری طرف صحافت کے پیشے سے اُن کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
اُن کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جب ایک صحافی بہ یک وقت کئی کام اپنے ذمے لیتا ہے۔ وہ صحافی بھی نظر آئے گا،وہ غریبوں کے لیے امداد بھی جمع کرتا نظر آئے گا، بعض دفعہ سبزی منڈی جاکر سبزیوں کے دام بھی بتاتا نظر آئے گا،وہ ایک دانش ور کی طرح معاشرے کی برائیوں پر بھی تبصرہ کرے گا، یعنی وہ سماجی کارکن کا فریضہ بھی انجام دے گا۔ہم اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ کئی نام نہاد صحافیوں نے وائرل ہوجانے کے لیے دماغی طور کمزور اشخاص کی کمزوری کا فائدہ اُٹھایا ہے۔ یوٹیوب پر ایسے نہ جانے کتنے ویڈیوز موجود ہیں جن میں ہمارے خود ساختہ صحافی کئی لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں؛لیکن ایک بات یاد رکھیں وہ لوگ محض اپنے آپ کا مذاق نہیں اُڑاتے ہیں بلکہ صحافت کا بھی مذاق اُڑاتے ہیں۔اسی طرح ایسے انٹرویوز بھی موجود ہیں جو کہ اول تو صحافتی تناظر سے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے ہیں ،دوئم اُن میں صحافت کے پیشے کے ساتھ بھی کھلواڑ ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت کا معیار روز افزوں گرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر صحافت کے گرتے معیار کی طرف ابھی بھی توجہ مبذول نہ ہوئی تو وہ دن دور نہیں جب ریاست کا یہ چوتھا ستون پوری طرح زمین بوس ہوجائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحافتی اقدار اور معیارات کی بازیافت کیسے ممکن ہے۔؟اس ضمن میں صحافتی اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صحافتی اقدار و معیارات کی تنزلی کو روکنے کی بھر پور کوشش کریں۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ حکومت وقت کی توجہ اس طرف مبذول کرائے کہ صحافیوں بالخصوص فری لان سر صحافیوں کی اہلیت کا تعین کرے یا کوئی ایسی کمیٹی تشکیل دے جو اُن کی صحافتی اہلیت کو جانچ سکے۔ کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی کسی صحافی کو باضابطہ ایک اندراج نمبر کے تحت صحافی بننے کا اہل قرار دیا جانا چاہئے۔اکثر سوشل میڈیا صحافی ایسے ہیں جن کے پاس صحافت کا کوئی کورس تو دور کی بات ،وہBasic Communication Skillsسے بھی محروم نظر آتے ہیں۔اگرچہ کچھ صحافی ایم اے اردو بھی ہیںلیکن محض کسی زبان پر عبور ہونا بھی صحافت کیلئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو نہ ہی صحافت کو ایک الگ شعبے کی حیثیت حاصل ہوتی اور نہ ہی یہ الگ مضمون ہوتا۔ اسی طرح صحافیوں کو بھی چاہئے کہ اگر وہ اس پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے ہیں تو اُنھیں اپنی ناتجربہ کاری سے صحافت کے معیار کو گرانے میں معاون بننے سے گریز کرنا چاہئے۔بہر صورت صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جو قابلیت ، دیانت داری اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ صحافتی اصول و ضوابط کی پاس داری کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ لہٰذاخود ساختہ صحافیوں کو اس بات پر ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ صحافت کے معزز پیشے کو اپنی ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھا کر صحافت کی خدمت اور اس کی ترقی و ترویج کے بجائے صحافتی اقدرا اور معیارات کی تنزلی کا سبب تو نہیں بن رہے ہیں۔(ختم شد)
رابطہ۔شعبہ اُردو جامعہ کشمیر ،سرینگر
فو ن نمبر۔9149958892
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اورانہیںکسی بھی طو ر کشمیر عظمیٰ سے منسوب کیاجاناچاہئے۔)