معصوم مراد آبادی
ہم علی گڑھ مسلم یونورسٹی کے بانی سرسیداحمد خاں کو عام طورپر مسلمانوں میں جدید تعلیم عام کرنے والے ایک مصلح اعظم کے طورپر جانتے ہیں ، لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سرسید نے اپنی زندگی میں ہندومسلم اتحاد کے سلسلہ میں جو قربانیاں پیش کیں ، وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ سرسید ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔وہ ہندو اور مسلمانوں کو اپنی دوآنکھوں سے تعبیر کرتے تھے۔ انھوں نے صرف نظریاتی طورپر ہی قومی یکجہتی کے اس تصور کو فروغ نہیںدیا بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کی اورایسے کاموں سے بھی گریز نہیں کیا جن کے قریب جاتے ہوئے لوگ کراہیت محسوس کرتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت سرسید کے قیام مرادآباد سے ملتا ہے جہاں وہ صدرالصدور کی حیثیت سے ساڑھے تین سال مقیم رہے۔ 1860میں پورے شمال مغربی صوبے میں عموماً اور مرادآباد میں خصوصاً زبردست قحط پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف موذی امراض وآفات نے ہر خاص وعام کو اپنی گرفت میں لے لیا۔مصیبت کی اس گھڑی میں سرسید نے مختلف تدابیر اختیار کرکے انسانی ہمدردی کا ثبوت پیش کیا ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ قحط زدگان کی امداد اور بازآبادکاری کا سارا کام مسٹر جان اسٹریچی کلکٹر مرادآباد نے سرسید احمد خاں کے سپرد کردیا تھا ۔انھوں نے دن ورات کی محنت اور جدوجہد سے عوام کو اطمینان کا سانس لینے کے قابل بنادیا ۔ان امدادی تدابیر کا ذکر کرتے ہوئے ’حیات جاوید‘ میں مولانا الطاف حسین حالی رقمطراز ہیں:
’’محتاج خانے کے حسن انتظام کا یہ حال تھا کہ چودہ ہزار محتاجوں کو گھنٹہ بھر میں کھانا تقسیم ہوجاتا تھا۔ بیماروں کے لیے شفاخانہ اور ڈاکٹر موجود تھا۔بیماروں کو پرہیزی کھانا ملتا تھا ۔زچاؤں اور شیرخواروں کو دودھ ملتا تھا ۔ جو ہندو اپنے سوا کسی کا پکا نہیں کھاتے تھے ، ان کے لیے علاحدہ چولہے بنے ہوئے تھے۔مسلمانوں کے لیے مسلمان اور ہندوؤں کے لیے ہندو کھانا بناتے تھے۔‘‘
سرسید کو جب اسٹریچی صاحب نے قحط کا انتظام سپرد کیا تھا تو انھوں نے صاف کہہ دیا کہ سب کچھ اس شرط پر کروں گا کہ جتنے لاوارث بچے آئیں گے ، ان میں جتنے مسلمان ہوں گے ، مسلمانوں کو اور جتنے ہندو ہوں گے ، وہ ہندوؤں کے سپرد کئے جائیں گے ،چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا ، جتنے لاوارث بچے آئے وہ ہندو مسلمانوں کے سوا کسی مشنری کو نہیں لینے دئیے۔حسب ہدایت جو بچہ کسی کے سپرد کرتے تھے اس سے یہ اقرار نامہ لکھوالیتے تھے کہ ہم اس کو لونڈی یا غلام نہیں بنائیں گے ۔
عام خیال یہ ہے کہ سرسید کی تحریک کا محورومرکز صرف مسلمان تھے اور انھوں نے ہی ان کی معاونت بھی کی ، لیکن حقیقت میں سرسید کے معاونین میں ایک تعداد ہندوؤں کی بھی تھی،جنھوں نے سرسید کے مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس ذہنی اتحاد کی داغ بیل بھی مرادآباد میں ہی پڑی ۔مرادآباد کے راجہ جے کشن داس جو ’’لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ کے اجراء کے سبب سرسید کو محض مسلم پرست اور متعصب رہنما سمجھتے تھے ، اتفاق سے قحط زدگان کے ایک کیمپ میں جاپہنچے جہاں انھوں نے خود اپنی آنکھوںسے سرسید کی بے تعصبی اور قومی ہمدردی کا یہ منظر دیکھاکہ ایک ہندو شخص کہ جس کے کپڑے بول وبراز سے آلودہ تھے اور اسہال کے سبب تعفن دور دور تک پھیل رہا تھا اور اس کے عزیز بھی اس کو چھوڑ کر جاچکے تھے ، سرسید نے خود اس کے بدن کو صاف کیا اور احتیاط سے دوسرے صاف بستر پر لٹادیا۔یہ دیکھ کرنہ صرف راجہ صاحب کا دل بھر آیا بلکہ سرسید سے متعلق ان کی سوچ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔وہ آگے چل کر سرسید کے زبردست حامی اور معاون بن گئے۔
قحط سالی کے بعد سرسید نے اس بات کی تہہ دل سے کوشش کی کہ ہندویا مسلمان یتیم بچے عیسائی مشنری والوں کے ہاتھ نہ لگنے پائیں کیونکہ ایسے بچوں کو مشنری والوں کے حوالے کرنا ان کو عیسائیت کی طرف راغب کرنے کے مترادف تھا۔راجہ جے کشن داس سرسید کی تحریک میں شانہ بشانہ رہے ۔وہ ابتدائی مدرستہ العلوم کے قیام میں سرسید کے ساتھ رہے ۔ایم اے او کالج کے جلسہ تاسیس میں موجود رہے ۔وہ ادارے کی انتظامیہ کمیٹی کے صرف ممبر ہی نہیں رہے بلکہ بعض اوقات سرسید کی عدم موجودگی میں انتظامیہ کمیٹی کی میٹنگوں کی صدارت بھی کی۔انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے فروغ میں بھی حصہ لیا ۔جب 1867میںسرسید کا علی گڑھ سے بنارس تبادلہ ہواتو وہ سرسید کی جگہ سوسائٹی کے سیکریٹری بنائے گئے۔وہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنسوں کی میٹنگوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔
راجہ جے کشن داس کی ایک اور مثال ہمارے لیے مشعل راہ ہے،وہ یہ کہ برطانوی حکومت کی طرف سے مرادآباد کے دیوان کا بازار علاقہ میں جو جائیداد راجہ صاحب کو بطور انعام دی گئی تھی ، اس کے ایک گوشے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی ۔ راجہ صاحب نے مسجد کو نہ صرف اسی حالت میںقایم رکھا بلکہ جب تک حیات رہے مسجد کے جملہ اخراجات بھی اٹھاتے رہے۔ان کے بعد ان کے بیٹے اور پھر پوتے سرجگدیش پرشاد مسجد کا سارا خرچ اٹھاتے تھے۔ یہ مسجد آج بھی موجود ہے اور راجہ والی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔
[email protected]>
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔