ماسٹر طارق ابراہیم سوہل
اس حیات ارضی کو غم خانہ دہر نہیں تو اور کیا کہئے کہ یہاں ہر پل موت ہماری تلاش میں ہماری داستان کو حرف غلط کی طرح مٹانے کے لئے ہمارے وجود سے لپٹی ہوء رہتی ہے۔بڑے بڑے شہ زوروں،پہلوانوں،حکمرانوں کو شکست دینے والی یہ موت،نہ مناصب کا نہ مراتب کا،نہ فقر کا نہ غنا کا،نہ مالداری کانہ محتاجی کا،نہ وطن کا نہ غربت کا،نہ تندرستی کا نہ مرض کا،نہ شباب کا نہ بڑھاپے کا لحاظ کرتی ہے۔اگر یہی انجام ہے ہماری اس زندگی کا تو پھر اس تلخ حقیقت کو فراموش کرنے کا جرم سنگین ہم سے سرزذ ہو کیوں رہا ہے !
مٹی مٹا دیتی ہے مراتب بھی مناصب بھی۔مٹ جاتا ہے اور مل جاتا ہے یہ وجود یا خاک میں یا راکھ میں۔بکھر جاتے ہیں اعضاء مسخ ہو جاتی ہیں صورتیں۔ خوشحال بھی اور کنگال بھی,شاہ بھی گدا بھی,ظالم بھی مظلوم بھی اسکے شکنجے میں کسے جاتے ہیں۔
ہماری نظریں جب اس دنیا کی چاروں طرف گھومتی ہیں تو ہمیں ہنگاموں سے آباد ایک بستی نظر آتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا آباد بستی ہے مگر یہ فریب نظر ہنگامے ہمیں غلط فہمی میں مبتلاء کر دیتے ہیں اور ہماری زندگیاں اسی رونق بے ثبات کی نذر ہو جاتی ہیں۔اسی سرائے فانی کی لذتوں کے حصول کی تگ و دو میں ہم اکثر جنون کی سرحدوں سے بھی آگے قدم بڑھاتے ہوئے دوسروں پے سبقت لینے کی کوشش میں ،کمزوروں اور بے کسوں کے جسم کے انگ انگ سے ایک ایک قطرہ لہو نچوڑ کر اپنی انا کی تسکین کے سامان عیش بہم پہچانے میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتے ہیں۔اس ابلیسی کارستانی کے مقابلہ جاتی امتحان میں کوئی مذہب کا پرچم لہراتے ہوئے تو کوئی سرکاری حیثیت کی سند لئے بازی مارنے کے لئے کمر بستہ نظر آر ہا ہے اور سیم وزر کے انبار لگ رہے ہیں۔جب سیم و زر اور مال و دولت کے ڈھیر لگ جائیں تو آنکھوں میں چاند اتر آنا کوء انوکھی بات نہیں۔ہم نے دیکھا ہے وہ بھی بہت قریب سے کہ جب عہدہ نہیں تھا تو اخلاق و شرافت،واہ ! قربان جائوںلیکن جب عہدہ ملا تو فرعون اور نمرود کی داستان زندہ ہو گئی۔
نفسانی خواہشات کی تکمیل انسانوں اور حیوانوں کی قدر مشترک ہے اگر انہیں لذات کے حصول کو منزل مقصود مان لیا جائے تو یہ خود فریبی،ابدی ذلت اور دائمی نا کامی پے منتج ہوگی۔لیکن مزاج کچھ ایسا ہی نظر آر ہا ہے اور ساز یہ گھرگھر بج رہا ہے۔ مغربی تہذیب کی یلغار نے اس سوچ کے برگ و بار کو اور بھی ترو تازہ کر دیا ہے اور ہماری عقلوں پے تالے پڑ گئے ہیں اور تدبر و تفکر کے چراغ بجھ چکے ہیں۔ عام تو عام مگر اس امت کے افراد بھی اپنے فرض منصبی سے بعید ہی نہیں بلکہ بے خبر ہو رہے ہیں۔اس دلدل سے نکلنے میں ہمیں بہت حد تک مدد مل سکتی ہے اگر ہم موت کو کثرت سے یاد کریں۔اطراف عالم میں ہر دور میں اور آج بھی جنکی آنکھوں کے سامنے موت کا منظر رہتا ہے وہ حسد،حرص،بغض اور کبر جیسی باطنی غلاتوں سے اپنے تن من کو پاک رکھنے کی سعی پیہم کرتے ہیں۔اسی لئے سید الانبیاء ؐنے ارشاد فرمایا کہ”لذتوں کو مٹانے والی (موت) کو کثرت سے یاد کرو”
تجربات سے ثابت ہے کہ جس جگہ جس چیز کا کثرت سے ذکر ہو اس جگہ پے وہی چیز پھولتی پھلتی ہے۔ جس چیز کا ہم اپنے گھر کے اندر ذکر کرینگے وہی چیز ہمارے گھروں میں جگہ بنا لیگی۔انسانی آرزؤں ،تمناؤں اور مشغولیات کا سلسلہ دراز سے درزاتر ہوتا رہتا ہے اور ان آرزؤں اور تمناؤں کی تکمیل کے دواعی شدت سے ابھرتے ہیں۔ادھر ایک تمناء بر آئے ادھر دس نئے دل میں اتر آئیں۔اسی تگ و دو میں وقت موعود قریب سے قریب تر ہو گیا،آخری سانسیں شمار کرنے کے لمحات عرصۂ حیات کے طول و عرض کو سمیٹنے کے لئے مستعد ہیں،دنیا چھوٹنے کا غم کھائے جا رہا،عزیر و اقارب سے مہجوری کا تصور گویا کلیجہ چیر رہا ہے،نا حق کمایا ہوا مال دوسروں کی گرفت اور تصرف میں نظر آ رہا۔حسرت کا کیا عالم ہوگا،بس داعی اجل کے آہنی پنجوں میں جکڑنے والا ،اپنے زمانے میں اپنی صلاحیتوں پے اکڑنے والا یہ نادان ہی خوب سمجھ رہا ہوگا۔اب اس مکان میں داخل ہونے ہی والا ہے جہاں جانے کا کبھی گماں تک نہ ہوا تھا۔
بلا شبہ لذت کو مٹانے والی موت کو کثرت سے یاد کرنے والے ہی اصل میں عقلمند ہوتے ہیں اور وہی لوگ ہر کام کے انجام پر نگاہ رکھتے ہیں۔
پتہ۔ نیل چدوس،ضلع رام بن،جموںوکشمیر
رابطہ نمبر۔ 8493990216
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔