اس بات سے ہر فرد واقف ہے کہ وادیٔ کشمیرکے باشندوں کو روز مرہ زندگی میں عرصۂ دراز سے جو بعض مسائل درپیش ہیں ،موسمِ سرما کے آغاز سے ہی اُن میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔روز گار کے وسائل کم ہوجاتے ہیں،سردیوں سے بچنے کے لئے درکار ضرورتوں کو پورا کرنےپر اخراجات بڑھ جاتے ہیں،بیماریوں میں بڑھوتری ہوجاتی ہےاور کئی ایسے مصائب پیدا ہوجاتے ہیںکہ غریب عوام کا غریب ہونا ہی ایک جُرم بن جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ کشمیر میںروزگار تواتر کے ساتھ ناپید ہےاور تعلیم یافتہ بے کار نوجوان دربدر بھٹک رہے ہیں۔اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہےاور ناجائز منافع خوری کھلے عام ہورہی ہے۔
بجلی اور پانی کی نایابی ، قلت اورآنکھ مچولی سرینگر اور مضافات کے مختلف علاقوں میں صارفین کے لئے روایتی پریشانی بنی ہوئی ہے۔ بعض اضلاع کی بیشتر آبادی پینے کے پانی کی شدید قلت یا مکمل عدم دستیابی کے باعث ندی نالوں کا ناصاف اور مُضر صحت پانی استعمال کرکے بیماریوں کا شکار ہورہی ہے۔پینے کے پانی کی عدم دستیابی پرسرینگرکے بعض علاقوں کےلوگوں میںسرکاری انتظامیہ اورمتعلقہ محکمہ کے لئے غم و غصہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔سچ تو یہی ہےکہ کسی بھی حکومت کے مستحکم ،مضبوط اور کامیاب ہونے کی واضح دلیل یہی ہوتی ہے کہ اُس کے دورِ اقتدار میں عام لوگوں کی حالت میں بہتری پیدا ہو، غریب لوگوں کو دو وقت کی روٹی آرام سے میسر ہو اور روزمرہ استعمال کی جانے والی غذائی اجناس کی قیمتوں میں استحکام و اعتدال ہو ۔ اِنہی باتوں پر سیاستدان، سیاست گری کرتے ہیں اور اسی سیاست گری کے تحت حکمرانی بھی حاصل کرتے ہیں۔
گوکہ حکمرانی ایک آنی جانی چیز ہوتی ہے،تاہم کامیاب حکمرانی کی واضح دلیل یہی ہوتی ہے کہ عوام کو درپیش مسائل کا ازالہ ہوجائے،غریب و پسماندہ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم ہوجائیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائےتو جموں و کشمیر کی موجودہ ڈبل انجن سرکارکی حکمرانی ناکام ثابت ہورہی ہے۔اگر منتخبہ موجودہ حکومت کاذکر کیا جائے تو ایک سال سے زائد عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی بھی اچھی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔اگرچہ یہاں کی موجودہ منتخبہ حکومت یہاں کے لوگوں کو درپیش مسائل سے بخوبی واقف ہے،پھر بھی وہ لوگوں کے درپیش مسائل کو کم کرنے یا کوئی راحت پہنچانے میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کرپائی ہےاور نہ ہی کوئی ایسی دانش مندانہ حکمت ِ عملی اپنائی ہے،جس سے نتیجے میں کسی بھی دیرینہ مسئلے کا حل نکل آیا ہو۔ اسی لئےاس حکومت کے خلاف عوام کےغم و غصہ میں اضافہ ہورہا ہے۔یہاں یہ بات کہنا بھی بالکل برحق ہے کہ وادی ٔ کشمیر کے لوگوں کو زندگی گذارنےکے لئےقدرت نے ایسےکئی وسائل سے مالا مال کررکھا تھا ،جن کی بدولت اُسے ہر وقت فیض حاصل ہوتا ۔اگر پینے کے پانی کے ذخائر کی ہی بات کریںتو نہ صرف کشمیری عوام کی ضروریات بغیر کسی خلل کے پورے ہوسکتے تھے بلکہ دوسرے خطے بھی ان سے فیض یاب ہوسکتے ۔
لیکن بدقسمتی سے وقت وقت کے حاکموں کی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ پالیسیوںسے وادیٔ کشمیر میں قدرت کے عطا کردہ یہ وسائل محدود و مسدود ہوکر رہ گئے ہیں۔جس کا خمیازہ اب یہاں کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو درپیش مسائل کے تئیں اگرچہ موجودہ منتخب حکومت کے وزیر اعلیٰ بذاتِ خود وعدے اور دعوے کرنے میں تھکتے نہیں،لیکن حقیقت میں کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہےاور صورت حال جُوں کی تُوں دکھائی دے رہی ہے۔البتہ جہاں حکمران سیاسی پارٹی کے بعض لیڈر اور عہدیداران حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی کو بڑا چڑھا کر پیش کرنے میں مصروف ِ عمل ہیں ،وہیں اپوزیشن جماعتوں کے زیادہ تر لیڈر اور عہدیدار، حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی کو ناکارہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں،گویا دونوں طرف سے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے بجائےسیاسی خود غرضی اور نجی مفادات کا روایتی طریقۂ کار اپنائے ہوئے ہیں۔جس کے نتیجے میں عام لوگوں میں سیاسی پارٹیوں کے خلاف بد ظنی پیدا ہورہی ہےاور اس صورت حال میںانتظامی شعبوں میں موجود غلط پالیسیوں کے مرتکب بعض اعلیٰ عہدیدار اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث بیشتر آفیسرو اہلکار وارے نیارے کررہے ہیںاور نتیجتاً ناجائز منافع خوری ،ملاوٹ خوری ،رشوت ستانی ،لوٹ کھسوٹ ،ہم سَری اورکام چوری میں کوئی فرق نہیں آرہی ہےاور نہ ہی لوگوں کے مسائل دور ہورہے ہیں۔