سرینگر//پولیس نے 2 ماہ قبل دختران ملت سے وابستہ4 کارکنوں کی گرفتاری سے متعلق رپورٹ بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارکن پولیس تھانہ صورہ کو ایک کیس سے متعلق مطلوب تھیں،جبکہ ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے بھی پولیس رپورٹ کی بنا پر اس کیس کو خارج کرنے اور ضلع ترقیاتی کمشنر کو سماعت میں جوابدہ نہ بنانے سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ جنوبی ضلع پلوامہ میں 8اپریل کو پولیس نے دختران ملت سے وابستہ4کارکنوں کو حراست میں لیا تھا،جس کے بعد انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے دختران کارکنوں کی گرفتاری سے متعلق بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا،جس پرکمیشن نے اس سلسلے میں ایس ایس پی پلوامہ اور ضلع ترقیاتی کمشنر پلوامہ کو معاملے کی نوعیت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ۔اس حوالے سے ایس ایس پی پلوامہ کی طرف سے کمیشن میں ایک رپوٹ پیش کی گئی،جس میں کہا گیا کہ6اپریل کو حزب المجاہدین سے وابستہ ایک جنگجو مصور حسین ولد غلام حسن ساکن دلی پورہ پلوامہ کو فورسز نے کنگن پلوامہ میںجان بحق کیا تھا،جس کے بعد امن و قانون کی صورتحال پیدا ہوئی اورپلوامہ قصبہ میں صورتحال کشیدہ رہی۔اس دوران8 اپریل کو دختران ملت کا ایک گروپ پلوامہ پہنچا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا’’ اس وقت امن و قانون کی صورتحال اور ماحول سخت کشیدہ تھا،اور ان کارکنوں کو جان بحق جنگجو کے گھر جانے کی اجازت دینا معقول نہیں تھا‘‘۔رپورٹ کے مطابق’’ نیزدختران ملت کا گروپ پولیس تھانہ صورہ کو ایک ایف آئی آر زیر نمبر35/2018زیر دفعہ13 انسدادغیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ کے تحت بھی مطلوب تھا،اور انہیں خواتین پولیس اہلکاروں کے ذریعے حراست میں لیکر پولیس تھانہ خواتین رام باغ منتقل کیا گیا۔ واقعے سے متعلق ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے’’پس درخواست گزار کی طرف سے انسانی حقوق کی کوئی بھی پامالی نہیں ہوئی،اس لئے کمیشن سے استدعا ہے کہ وہ اس شکایت کو مسترد کریں اور سماعت کے دوران انہیں جوابدہی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔