جموں//چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (سی سی آئی) نے جموں میں 100 ریلائنس سٹور کھولنے کے خلاف 22 ستمبر 2021 (بدھ) کو ایک روزہ پرامن بند کی کال دی ہے۔/چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز جموں کے صدر ارون گپتا نے تاجروں ،ہوٹل مالکان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’تمام تنظیموں نے بند کی کال پر اپنا تعاون دیاہے۔ ہم نے بدھ کو ایک روزہ علامتی بند کی کال دی ہے لیکن اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو ہم تمام تنظیموں کے تعاون سے غیر معینہ مدت کے لیے بند پر جاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ "والمارٹ کو جموں میں B2B کاروبار کے لیے کھول دیا گیا تھا ، لیکن وہ B2C کاروبار بھی کر رہے ہیں جس سے جموں میں ہمارا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔ اور اب وہ جموں میں 100 اور کشمیر میں 3 ریلائنس سٹور کھول رہے ہیں جس سے جموں کے کاروباریوں پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے‘‘۔ان کاکہناتھا"اگر وہ (ریلائنس اسٹورز) جموں کے 1000 نوجوانوں کو روزگار دیتے ہیں تو 20000 سٹورز (کریانہ سٹورز / تھوک فروش) ریلائنس اسٹورز کے کھلنے سے بند ہوجائیں گے۔ ان دکانوں میں ان کے پاس جوتے ، ادویات سے لے کر گروسری تک ہر قسم کا سامان ہوگا‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہ جموں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے اور وہ اسے برداشت نہیں کریں گے۔دربار موو کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1988-89 میں اس وقت کی فاروق عبداللہ کی حکومت نے بھی دربا ر موعمل کو روکنے کا فیصلہ کیا تھا اور جموں نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔براہ راست بی جے پی پر جموں کے تاجروں کی طرف ان دیکھی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا "جموں اس وقت کے حکومت کے فیصلے کے خلاف مسلسل 23 دن تک بند رہا اور جموں بار ایسوسی ایشن کے ساتھ چیمبر اور بی جے پی دربار موو پریکٹس کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر تھے ‘‘۔ انہوں نے اس دعوے کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ حکومت نے دربار مو ختم کرکے 200 کروڑ روپے تک کے خزانے کا نقصان روک دیا ہے اور کہا کہ دربار منتقل ہونے کے دوران کشمیر سے لوگ سرمائی دارالحکومت (جموں) میں اپنے خاندانوں کے ساتھ آتے تھے جس سے جموں کے بازاروں میں مالی سرگرمیاں بڑھ جاتی تھیںاورحکومت کو ٹیکس بھی ادا کیا جا رہا تھا۔انہوں نے سوال کیا کہ کس وجہ سے دربار مومبینہ طور پر رک گیا ہے۔ان کا کہناتھا"ان کے فیصلے نے کشمیر کے لوگوں کو وادی میں اور جموں کے لوگوں کو اپنے علاقے میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ اگر وہ جموں نہیں آتے اور ہم وہاں (کشمیر) نہیں جا سکتے تو پھر ہم نے جموں و کشمیر کو ایک واحد مرکزی علاقہ کیوں رکھا ہے؟ اسے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’ لیہ (لداخ یو ٹی کا حوالہ دیتے ہوئے) نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات کو تسلیم کروا لیا ہے اور ان کے مسائل حل کرائے ہیں کہ مقامی لوگوں کوہی نوکریاں اورتجارت ملے گی لیکن یہاں بیرونی لوگ جموں و کشمیر میں آباد ہو رہے ہیں۔ وہ کشمیر میں لوگوں کو آباد کرنے کے بارے میں پریشان تھے لیکن ایک آر ٹی آئی نے انکشاف کیا کہ دو سال میں صرف دو لوگ وہاں جائیداد خریدے ہیں۔ ان کا واضح ارادہ جموں کو پریشان کرنا ہے۔ ہم مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ان کا کہناتھا ’’ کشمیر میں مسلم کمیونٹی کی 98 فیصد آبادی ہے۔ جب وہ جموں آتے ہیں تو ان کی کوششوں سے بھائی چارے اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتاہے۔ کیا انہوں نے رشتہ ختم کرنے کا معاہدہ کیا ہے؟ وہ ایک سال میں تبدیلی مانگ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کے دوروں کی منصوبہ بندی عہدیدار کرتے ہیں اور وہ عوامی نمائندوں سے نہیں ملتے جو کہ بدقسمتی ہے،ہم ان ممبران پارلیمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات کیسے پیش کر سکتے ہیں؟۔انہوں نے کہا ’’سکھ ، جین ، مہاجن اور کھتری کو زرعی زمین خریدنے سے روک دیا گیا ہے،ہم نے یہ مسئلہ اٹھایا لیکن پچھلے 2 سال میں اسے حل نہیں کیا گیا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ کام کی وجہ سے نہیں مل سکتے‘‘۔جموں میں تاجروں کی طرف سے درپیش متعدد مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے گپتا نے کہا "ہمارے بہت سے مسائل ہیں جن میں شراب کی دکان ، بار اور ریستوران ، ریت اور کان کنی ، بینکویٹ ہال کے مالک کے مسائل شامل ہیں اور ان میں سب سے بڑا ریلائنس سٹورز کھولنے کا ہے"۔ان کے ساتھ جموں بھر کی بازار ایسوسی ایشنز بھی تھیں جو پریس کانفرنس کے دوران موجود تھیں۔انہوں نے کہا کہ "پچھلے سات یا آٹھ مہینوں سے حکومت کی طرف سے جموں کی تجارت میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم ، تاجروں کے ساتھ کوئی بحث (مکالمہ) نہیں ہے۔ حکومتی عہدیدار تاجروں سے مشورہ کیے بغیر بند دروازوں میں فیصلے کرتے ہیں۔ اگر جموں کی آواز دبا دی گئی تو ہم تجارت اور صنعتوں کا مسئلہ اٹھائیں گے۔