سید مصطفی احمد
انسان جذبات کا مجموعہ ہے۔ ایک انسان میں مختلف جذبات موجود ہیں۔ خوشی، غم،نفرت، حسد، لگائو، وغیرہ ہر انسان میں پائے جاتے ہیں۔ جس طرح کے حالات ہوتے ہیں، اس جیسے جذبات ابھرتے ہیں۔ کبھی انسان گہری سوچ میں ڈوب کر ملے جلے جذبات کے ادوار سے گزرتا ہے۔ جذباتی ہونا فطری ہے، یہ کوئی عیب نہیں ہے۔ خدا بچائے یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ جیسے بھوک لگنا صحت مند ہونے کی علامت ہے ،اسی طرح جذباتی ہونا بھی تندرستی کی علامت ہے۔ البتہ بگاڑ تب پیدا ہوجاتا ہے جب کوئی انسان جذبات کی رو میں بہہ جائے۔ اس کو اچھے اور برے کی تمیز ختم ہوجائے۔ یا پھر وہ فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم ہوجائے۔
ہماری یہاں جذبات جیسی نازک چیزوں پر کھل کر بات نہیں ہوتی ہے۔ ان کا ذکر کبھی کبھار آتا ہے یا پھر زیادہ تر لوگ اس دنیا سے ناواقف ہیں۔ جو لوگ اس فیلڈ میں مہارت رکھتے ہیں، ان کی تعداد بھی بہت کم ہیں۔ ہمارے پرانے سماج میں سب سے زیادہ ضروری چیزوں کی طرف کم دھیان دیا جاتا ہے۔ جو چیزیں سب سے اول نمبر پر آنی چاہئے تھیں، وہ پیٹھ پیچھے پھینک دی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے پھر جذبات جیسے اہم مسائل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ پورے سماج کی اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے کہ حالات ایسی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو جذباتی ناخواندہ کہیں، تو کوئی بھی قباحت نہیں ہے۔ اس صورتحال کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے۔ نجی سے لے کر اجتماعی دونوں قسم کے وجوہات اس ناپختگی میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ اس مضمون میں جن وجوہات کا ذکر کیا جائے گا ، ان کے ساتھ قارئین کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ یہ تجربات میرے ہیں اور قاری کو آزادی ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے۔ پہلی وجہ ہے علم کا فقدان۔ تعلیمی اداروں اور نہ ہی ہمارے گھروں میں جذباتی پختگی کی بات ہوتی ہے۔ اگر ہو بھی، تو بہت کم حد تک ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تجربہ کار افراد کی کمی کے باعث اس مضمون پر کبھی بات نہیں ہوتی ہے۔ ہاں! کچھ زبانی باتیں پڑھائی جاتی ہیں اور طلباء اس کو طوطے کی طرح یاد کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔ وہ طلباء بیچارے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہمارے زندگیوں پر جذبات کا کتنا اثر ہے۔ دوسرے لحاظ سے کہا جائے جیسے کہ اوپر پہلے ہی ذکر کیا گیا ہے کہ زندگی بس جذبات کا کھیل ہے۔ ہار ہوئی تو قیامت، ورنہ خوشی کا ٹھکانہ نہیں۔
دوسرا ہے حقیقی زندگی سے قطع تعلقی۔ ہم سب کو لگتا ہے کہ زندگی کمانا، کھانا اور سونا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ رسوم ادا کرنے کا نام زندگی ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ جتنا کام مشین کرتی ،کوئی نہیں کرتا۔ البتہ جذبات کے بغیر۔ اسی طرح سمندری مچھلیاں اتنا کھاتی ہیں کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر جذبات سے پرے۔ اسی طرح کچھ جانور دن بھر سوتے ہیں۔ زیادہ کام بھی نہیں کرتے۔ مگر وہ بھی جذبات سے عاری۔ مگر انسان الگ شئے ہے۔ اس میں احساسات ہیں۔ اس کو صرف غذا اور سونے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اندرون میں ایسا کچھ ہے جس کو کچھ اور کی ضرورت ہے۔ انسان اندر سے جیتا ہے باہر سے نہیں۔ باہر کے حالات ہمارے بس میں نہیں ہیں مگر اگر اندرونی نظام درست ہو، تو باہری طوفان کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اس حالت تک پہنچنے کے لئے سب سے ضروری چیز ہے جذبات کا مثبت استعمال کرنا اور ان کو اندر سے باہر آنے کے لئے معقول مواقع فراہم کرنا۔ اگر بنیادی باتوں میں جذبات کو شمار کیا ہوتا، تو آج نوبت ذہنی دباؤ اور گناہوں کا ہر سو پھیلنا نہیں ہوتا۔ ہم نے اصل کی جگہ ثانوی حیثیت والی چیزوں کو فوقیت دی جس کی وجہ سے اب کھانا، کمانا اور سونا لاحاصل سا ہوگیا ہے۔ اگر جذبات پر کام کیا ہوتا، تو پھر کم کھانا،کم سونا اور کم کمانا بھی باعث اطمینان ہوتا۔ ہم نے جذبات کو بے لگام گھوڑے کی طرح میدان میں چھوڑ دیا اور جب یہ بے قابو ہوگیا، تب ہم نے ہر طرف ہاتھ پاؤں مارے مگر نتیجہ صفر۔ ہماری حالت برابر ایسے گھوڑے کی ہے۔
تیسرا ہے مذہبی تنگ نظریہ۔ ہمارے یہاں مذہب کو چند رسموں تک محدود کیا گیا ہے۔ مذہب کا بنیادی مقصد ہے زندگی آسان سے آسان تر بنانا۔ بے لگام زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ مذہب زندگی میں ایک شعور لاتا ہے۔ ہر وقت ہوشیار رہنا مذہب کا بنیادی وصف ہے۔ ایک منٹ کی غفلت مذہب کے خلاف ہے۔یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے اندرون اور بیرون دونوں کو سنوارے۔ جذبات کا سمندر کہیں سیلاب کی شکل نہ لے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر کفر نہ منہ سے نکلے۔ خدا سے لاتعلقی نہ ہو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ خدا کی ذات ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہے۔ یہ ہے حقیقی مذہب کا تصور۔ اسلام بھی جذبات کو ایک معقول طریقوں سے استعمال کرنے پر زور دیتا ہے۔ غم، خوشی، حسد، لگائو، نفرت وغیرہ کی حالات میں عقل کا دامن نہ چھوڑنا بلکہ جذبات کے تباہ کن سیلاب کے سامنے، یہ سب اسلام سکھاتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں اسلام کچھ مخصوص عبادات کی نذر ہوگیا۔ فرقہ واریت کے نام پر لوگ لڑتے ہیںمگر اگر سب مل کر کوششیں کرتے، تو ہمارے اندرون اور بیرون دونوں میں نمایاں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتیں۔
چوتھا ہے ہماری کوتاہیاں۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی آسمانی مداخلت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ ہم اس معاملے میں بہت کچھ کر سکتے تھے مگر ہم نے سستی کا مظاہرہ کیا اور جذبات نے ہمارے گھروں کے جذبات کو ڈھایا دیا اور ہم گہری نیند میں پڑے رہے۔جذبات کو مثبت کاموں میں استعمال کرنے کیلئے سب کو اپنا اپنا تعاون دینا ہوگا۔ اس کے لئے حکومت کا بھرپور ساتھ چاہئے۔ Quotient Intelligence کی جگہ Quotient Emotional پر زور دینا چاہئے۔ گھروں سے لے کر تعلیمی اداروں تک EQ پر کام ہونا چاہئے۔ تجربہ کار افراد اور اساتذہ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ بچوں اور جوانوں کو جذبات کی ٹریننگ دینی ضروری ہے۔ حالات ہی ایسے ہیں کہ جذبات کے موثر فوائد اٹھائے جائیں۔ یہ وقت مانگتا ہے اور ہم وقت دینے کیلئے تیار ہونے چاہئیں۔ کب تک لوگ جذبات کو دباتے دباتے خود ہی دب جائیں گے۔ دیر ہونے سے پہلی ہی اس معاملے میں جاگنا باعث رحمت ہے۔
پتہ۔حاجی باغ، ایچ ایم ٹی، سرینگر
موبائل نمبر۔9103916455
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیںا ور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)