عبدالعزیز
کسی محفل میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کا ذکر چل پڑا۔ کوئی نہ کوئی صاحب یہ تبصرہ کر بیٹھتے ہیں کہ فلاں کرسچین مشنری سکول کا معیار تعلیم بہت اونچا ہے، ہمارے تعلیمی اداروں کا پست۔ کسی ہائی سکول کا نتیجہ ہر سال صفر ہے تو کسی اور سکول کا دس پانچ فیصد۔ برسوں سے یہ ادارے اپنی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جس شخص کی زندگی کا سارا تعلق تعلیم ہی سے رہا ہو وہ اس بحث کا اوّلین مخاطب ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کسی تعلیمی ادارہ نے اس احقر کو معیارِ تعلیم پر کچھ کہنے کی دعوت دی لیکن ایسے وعظ و نصیحت سے معیار تعلیم اونچا ہونے کی کوئی توقع نہیں۔
کرسچین مشنری سکولوں کی تعداد کہا جاتا ہے کہ اس وقت سارے ملک میں چالیس ہزار کے قریب ہے۔ ان سب سکولوں میں بظاہر وہی نصاب، وہی زبان، وہی قابلیت کے ٹیچرز ہوتے ہیں جو ہمارے سکولوں میںہوتے ہیں، لیکن معیار تعلیم میں بڑا فرق ہوجاتا ہے۔ آخر کچھ تو بات ضرور ہوگی جو ہم سے آج تک راز ہی رہ گئی ہے جس کا سمجھنا اور پانا مشکل ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کی غرض بھی یہی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کو پتہ چل جائے کہ آخر اس امتیاز کی وجہ کیا ہے۔
تعلیمی معیار کا اندازہ چند باتوں سے ہوجاتا ہے۔ بچوں کے سیکھنے کی رفتار، مضامین پر ان کی گرفت، ہوم ورک کا سلیقہ، طلبا کا ذوق و شوق، اساتذہ کی دلچسپی، پبلک امتحان کے نتائج جو ہر سکول کے معیار تعلیم کیلئے بیرو میٹر کا کام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سکول کا ڈسپلن، تعلیمی مصروفیات، سپورٹس گیمز، ڈرامے، تفریحی و تحریری مقابلوں سے طلبا کی تعلیم اور تربیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ محض بچوں کے یونیفارم ، وزنی سکول بیگ، اونچی فیس اور ٹیپ ٹاپ سے یہ سمجھ لینا کہ تعلیمی معیار بہت اونچا ہوگا، غلط فہمی ہے۔ البتہ یہ باتیں سکول کے ڈسپلن اور معیار تعلیم میں معاون ہوسکتی ہیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ سکول سے کامیاب طلبا نے کس حد تک پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلہ لیا ہے کیونکہ اکثر فرسٹ کلاس طلبا کو آرٹس کالجز میں بھی داخلہ نہیں ملتا۔
اچھی معیاری تعلیم مہنگی ہوتی ہے۔ غیر معیاری تعلیم سستی ہوتی ہے۔ ویسے تعلیم ’’ایجوکیشن انڈسٹری‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اعلیٰ معیاری شئے کیلئے بازار میں قیمت زیادہ دینی پڑتی ہے۔ اسی لئے بعض تعلیمی ادارے (Education Shops) میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ گورنمنٹ سکول اور میونسپل سکول پست تعلیمی معیار کیلئے مشہور ہیں۔غریب ماں باپ انہی سکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں برسوں میں ایک آدھ کوئی کسی پیشہ ورانہ کالج میں داخلہ کا مستحق ہوتا ہے۔
معیار تعلیم کا انحصار:۔
کسی بھی تعلیمی ادارے کی کارکردگی ور معیار تعلیم کا انحصار مندرجہ ذیل سات عناصر کے باہمی خوشگوار اور گہرے ربط و ضبط پر ہے جس کو ہم ’’زنجیر مجموعی اثر‘‘ یا انگریزی میں “Cumulative Effect” کہتے ہیں۔ (1 ادارہ کے قیام کا مقصد، (2 انتظامیہ کی کارکردگی، (3اساتذہ کی قابلیت اور دلچسپی، (4 داخلہ کے شرائط، (5 والدین کا تعاون، (6 مادری زبان کی سہولتیں، (7پرنسپل کی شخصیت۔ یہاں پر ان سب پر تفصیل سے بحث کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ضرورت، لیکن ایک اجمالی خاکہ سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ معیار تعلیم میں ان عناصر کی کیا اہمیت ہے۔
1۔تعلیمی ادارہ کے قیام کا مقصد تجارتی یا ذاتی منفعت ہوسکتا ہے یا پھر اپنی کمیونٹی کی خدمت یا ایسا سکول قائم کرنا جس میں صرف اونچے طبقہ کے لوگ ہی اس کا رخ کرسکیں۔ داخلہ فیس اتنی رکھی جائے کہ عام لوگ ادھر کا خیال ہی نہ کریں۔ وہ ادارے جو عام غریب طلبہ کیلئے قائم کئے جاتے ہیں وہ سوشل سروس کے جذبہ اور مذہبی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہاں پر تعلیم کا کچھ انتظام ضرور ہوجاتا ہے لیکن معیار تعلیم بہت دور رہ جاتا ہے۔
-2 کرسچین مشنری سکولوں میں انتظامیہ کہاں ہے، کسی کو پتہ نہیں اور نہ ان تک پہنچ آسان ہے۔ سارے سکول کا ذمہ دار پرنسپل اپنے کام کے پکے اور سچے ہوتے ہیں۔ سارا سکول مشین کی طرح چلتا ہے۔ مشین کے ہر پرزہ پر پرنسپل کی نظر ہوتی ہے۔ کوئی ناقص ٹیچر ان سکولوں میں چھ سات مہینوں سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔
اب ذرا ہمارا حال دیکھئے۔ انتظامیہ کے رکن کی پہنچ ٹائم ٹیبل سے لے کر بچوں کے نمبر بڑھانے تک ہے۔ سارے ٹیچرز کسی نہ کسی ممبر کے منظور نظر ہیں۔ پرنسپل صرف پوسٹ آفس ورک کرتا ہے۔ کبھی اس کی شکایت، کبھی اس کی شکایت مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس صورت حال کی خرابی یہ ہے کہ سکول چلانے کی ذمہ داری پرنسپل یا صدر مدرس کی ہے لیکن اسے کوئی اختیار نہیں۔ جن کے ہاتھوں میں اختیار ہے وہ ذمہ دار نہیں۔ اسی کو لارڈ کلائیو کی دو عملی پالیسی کہا جاتا ہے۔ وہ مال گزاری وصول کرتا لیکن انتظام کا ذمہ دار نہیں تھا۔ جو انتظام کے ذمہ دار ہیں وہ بے بس ہے۔ اس صورت حال کی عملی مثالیں ہمارے تعلیمی اداروں میں کثرت سے مل جائیں گی۔
انتظامیہ کے بعض اراکین کی انا (Ego) بہت گہری ہوتی ہے۔بعض تو احساس کمتری میں مبتلا تھے، اب انھیں کوئی سیٹ مل گئی تو ان کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے۔ اکثر توتو میں میں ہوجاتی ہے۔ پھر یہ باتیں فلٹر ہوکر سٹاف روم میں آتی ہیں۔ چند اساتذہ کے گروپ بن جاتے ہیں۔ سکول کی سیاست خوب کام کرتی ہے۔ وہ جو پڑھانے کی بات تھی، نصاب کی تکمیل وغیرہ سب بھول جاتے ہیں۔ سب کچھ ہے مگر تعلیم نہیں ہے جس کیلئے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔
-3کسی بھی تعلیمی ادارہ کا معیار تعلیم اچھے اور قابل اساتذہ پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ اگر سکول میں سب کچھ ہے، اچھے ٹیچر نہیں ہیں تو سب بے کار محض ہے۔ مشنری سکولوں میں Sister اور Nuns ہوتی ہیں جنھیں خدائی خدمت گار کہا جاتا ہے۔ انھیں دنیا کے دھندوں سے کام نہیں، بچوں کی تعلیم ہی ان کا ایمان اور زندگی ہے۔ ان میں بلا شبہ بہت سے ایسے ہوتے ہیں جنھیں Dedicated کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس پیشہ کو خدمت خلق اور مذہب کے پرچار کا ذریعہ بنالیا۔ ان کے کام اور لگن کو دیکھئے تو رشک آتا ہے۔ یہ ٹیچر سکول کا نمک ہیں۔ ان کا وجود اس ادارہ کیلئے باعث فخر اور دوسروں کیلئے قابل تقلید ہے۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے۔ ہمارے پرائمری سکول سے لے کر کالج، یونیورسٹی کی سطح تک دو چار اساتذہ ضرور ایسے مل جائیں گے جنھیں ہم Dedicated کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ فلاں لیڈر، فلاں منسٹر ابتدا میں ٹیچر رہ چکے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے سیاسی شعبدہ بازی کے ٹریننگ سنٹرز ہیں۔ دیہات میں شاید ہی کوئی ایسا ٹیچر ہوگا جو کسی نہ کسی پارٹی کا سرگرم کارکن نہیں ہے۔ الیکشن کے زمانہ میں ان کی حاضری سکولوں میں مہینوں برائے نام رہتی ہے۔ جب ان کا لیڈر کامیاب ہو گیا تو دوسرے الیکشن تک اس سے جائز و ناجائز کام لے کر یہ اپنی آمدنی بڑھاتے ہیں۔ اصل تعلیم کا مسئلہ کہاں رہ گیا، خود انھیں بھی نہیں معلوم۔
پیشہ ٔ تعلیم اکثر اساتذہ کیلئے ان کے مزاج اور ذوق سے بہت دور کی بات ہے۔ ساری زندگی یہ لوگ اس پیشہ کا بوجھ پیٹھ پر لادے چلے جاتے ہیں۔ تعلیم کا کام اکثر وجدان اور روحانی نوعیت کا ہوتا ہے، جہاں تک ان بے چاروں کی پہنچ نہیں۔ جو کام لشتم پشتم چلتا رہا ہو تعلیم کے معیار کا تذکرہ بے کار ہے۔ ہمارے مدارس میں ایک اور مرض عام ہے۔ اساتذہ کو تنخواہیں بہت کم دی جاتی ہیں۔ گورنمنٹ سے گرانٹ جو ملتی ہے وہ ٹیچر کو نہیں دی جاتی۔ وہ دستخط تو کرتا ہے لیکن تنخواہ کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو ہر ٹیچر کے سینہ میں سلگتی ہے۔ وہ اس کا بدلہ معصوم بچوں سے لیتا ہے۔ آنے والی ساری نسل کی قابلیت کا انحصار اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی ماہر تعلیم نے سچ کہا ہے کہ جو ٹیچر مالی پریشانیوں سے بدحال رہتا ہے وہ ملک کو اتنا نقصان پہنچاتا ہے جو کسی بیرونی دشمن سے ممکن نہیں۔ دینی مدارس میں اساتذہ کی معاشی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ بے شک دین کا کام ثواب کا ہے لیکن محض تعریف و توصیف ، ایثار و قربانی کا درس دیتے رہنے سے ٹیچر کا حال درست نہیں ہوسکتا۔ انھیں حکومت کے معیار کی تنخواہیں دینا لازمی ہے۔ تب ہی انھیں سکون حاصل ہوگا اور تعلیم کا معیار بلند ہوگا۔
ایک عرصہ سے مغربی ممالک میں ایک نئی اصطلاح چل پڑی ہے ’’فروغ انسانی وسائل میں سرمایہ کی مشغولیت‘‘(Investment in Human Resources)۔ یہ بات اب مسلمہ ہوچکی ہے کہ سرمایہ کا بہترین استعمال انسانی وسائل کی ترقی کیلئے ہی ہوسکتا ہے۔ اس راز کو جاپان نے پالیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ایک تباہ شدہ ملک نے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ اچھی تعلیم کیلئے اچھے ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ان کی تنخواہوں کو پرکشش بنا دیا اور ٹیچرز کو وہی سہولتیں دیں جو منسٹر کو نصیب ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بس تیس چالیس برس میں جاپان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بچے ملک کا اصل سرمایہ ہیں۔ ہم چاہے ملک کی دولت کتنے ہی شعبوں پر صرف کرتے ہیں، تعلیم پر اگر خرچ نہ کیا جائے تو سو برس بعد بھی وہیں ہوں گے جہاں آج ہیں۔ اساتذہ کی تنخواہوں سے بہتر کوئی اور انسانی وسائل میں سرمایہ کی مشغولیت نہیں ہوسکتی۔ ہمارا ملک تعلیم پر سالانہ بجٹ سے صرف 2.5 فیصد خرچ کرتا ہے اور دفاع پر 24فیصد۔ کوٹھاری ایجوکیشن کمیشن نے 1966ء میں ملک کی کل پیداوار (GNP) کا چھ فیصد مختص کرنے کی سفارش کی تھی لیکن آج تک تعلیم کا حصہ یہاں تک نہیں پہنچ سکا۔
اخراجات برداشت کرلیں تو ہر شہر کے سینکڑوں بچے سکولوں میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی بھی مثالیں ہیں کہ بعض حضرات اور خواتین نے ایک دو بچوں کی تعلیمی فیس اخراجات کی کفالت کی ذمہ داری دو سال تا پانچ سال تک لے لی ہے۔ جو شہر کی تعلیمی کمیٹیاں پہلے سے یہ کام خاموشی سے کئے جارہی ہیں وہ مبارکباد کے قابل ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی مسلم انتظامیہ کے پاس مقاصد کی فہرست میں کوئی ایک دفعہ ایسی نہیں ہے کہ ہر سال پانچ تا دس فیصد غریب، ذہین میرٹ لانے والے طلبہ کیلئے داخلہ مفت رہے گا اور ان کے تعلیمی اخراجات بھی ایجوکیشن سوسائٹی ہی برداشت کرے گی۔ سارے ملک کی اکثر ریاستوں میں میڈیکل انجینئرنگ کالجز، کالجز آف ایجوکیشن، کمپیوٹر انجینئرنگ، پالی ٹیکنیک، آئی ٹی آئی کے کئی ادارے مسلم انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہیں۔ بے شک انھیں قائم کرنے اور اثاثہ جات کی تعمیر و ترقی کیلئے لاکھوں کروڑوں روپئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک یہ ادارے ابتدائی دس بارہ برس تک کوئی ڈونیشن فیس نہ لیں وہ اپنے اداروں کو ترقی نہیں دے سکتے۔ چنانچہ کورسز کے لحاظ سے پانچ لاکھ سے لے کر ساٹھ ہزار روپئے کی پٹیشن فیس اب عام بات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شکایت اب عام ہوچکی ہے کہ غریب اور ذہین طلبہ میرٹ لانے کے بعد بھی اس کورس کو خرید نہیں سکتے۔ ان کی حیرت اور حسرت اس وقت بڑھ جاتی ہے جبکہ سینکڑوں رینک پیچھے کے امیدوار کو داخلہ مل جاتا ہے اور وہ محروم رہ جاتا ہے۔ ایسی بھی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان کورسز میں داخلہ کیلئے بعض نے اپنے رہائشی مکانات فروخت کر دیئے اور اس عرصہ میں اس سیٹ کا بھاؤ دوگنا ہوگیا۔ اس طرح وہ گھر سے بے گھر ہوگئے اور اپنے ہونہار کا مستقبل بھی تاریک ہوگیا۔
ہمارے عمائدین ملت کی زبانیں ایک عرصہ سے اس بارے میں خاموش ہیں۔ اگر یہ تعلیمی ادارے پانچ تا دس فیصد غریب، ذہین طلبہ کا داخلہ مفت رکھیں اور ان کے تعلیمی اخراجات کی بھی کفالت کسی حدتک کریں تو یہ ملت پر بڑا احسان ہوگا۔ انھیں ضرور کثیر سرمایہ کی ضرورت ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ وہ یہودی شیلاک (Shylock) کا رول ادا کرے اور بڑی بے دردی سے ملت کے لا قیمت ذہین سرمایہ کو یوں اپنے ہی ہاتھوں برباد کر دے جو ملت کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اجتماعی طور پر نہ کسی تعلیمی کانفرنس میں غور کیا گیا ہے اور نہ اس کی اہمیت پر سنجیدگی سے گفتگو ہوپاتی ہے۔ ان غریب طلبہ کی شرکت اور ساتویں جماعت تک ان کی تعلیمی ضرورت کی پابجائی ایک منصوبہ بند پروگرام کی طالب ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی سا کام نظر آتا ہے لیکن آج کرنے کا کام یہی ہے۔ باقی سب کام تعلیمی میدان میں دوسرے تیسرے درجہ پر آتے ہیں۔
موبائل۔ 9831439068
ای میل۔[email protected]
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)