ڈاکٹر محمد آصف حسین
ڈسٹرکٹ گزیٹیرمرادآباد کے مطابق 1624ء میں اور سیّد کمال واسطی کے مطابق 1630ء میں مرادآباد کی آبادکاری عمل میں آئی۔ حالانکہ ثانی الذکر تاریخ زیادہ معتبر ہے چونکہ کمال واسطی رستم کی فوج میں تھے اور جو کچھ بھی ہوا اُن کے سامنے ہوا۔لیکن سرکاری ریکارڈ یعنی ڈسٹرکٹ گزیٹیر کوترجیح دیتے ہوئے آئندہ سال یعنی 2024ء میں مرادآبا دکی تاسیس کے چارسوسال مکمل ہوجائیں گے۔جس کو مدنظر رکھتے ہوئے مرادآباد کے سپوت جناب معصوم مرادآبادی نے ایک دستاویزی حیثیت کاکارنامہ انجام دیا جو ’تاریخ مرادآباد‘کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
معصوم مرادآبادی کو اپنی جائے پیدائش یعنی مرادآبادسے جو ربط خاص ہے ،بالفاظ دیگر جو محبت ہے اُس کااظہار اُن کے نام کے ساتھ ساتھ اُن کے کام سے بھی ہوتارہا ہے جس کی نظیروہ مولاناابوالکلام آزاد کے کاتب خاص عبدالقیوم خطاط اور اپنے محسن حضرت افتخار فریدی کی حیات وخدمات پر مشتمل دستاویزی کتابوں کی شکل میں پیش کرچکے ہیں۔فریدی صاحب کو مرادآباد کی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، اُن کی بڑی خواہش تھی کہ مرادآباد کی تاریخ، کتابی شکل میں آناچاہیے ، شاید ،شاید کیابلکہ یقینا معصوم صاحب کے ذہن میں فریدی صاحب کایہ جملہ عرصہ دراز سے دستک دے رہا تھاکہ ’’کاش!آپ مرادآبا دکی کہانی لکھ دیتے۔‘‘ یہی وہ جملہ ہے جس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے معصوم صاحب نے نہ صرف مرادآباد کی کہانی لکھی بلکہ ’’تاریخ مرادآباد‘‘ ہی مرتب کر ڈالی۔جوکہ بجائے خود ایک تاریخی کارنامہ ہے۔جس کے لیے معصوم صاحب بجاطور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اللہ کاخاص کرم ہے کہ مرادآباد کو براس صنعت اور اْس کی چمک سے رونق بخشی ،یہاں کے گلی کوچوں میں براس کی کھنکھناہٹ اور چمچماہٹ نظر آتی ہے ( موجودہ دور میں آتی تھی کہاجائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔)بہر حال اس چمچماہٹ نے یہاں کی علمی وادبی سرگرمیوں کی دمک کو ماند کردیاجس کی زد سے یہاں کی تاریخ بھی نہیں بچ سکی اور آج حالات یہ ہیں کہ میری ناقص معلومات میں سوائے جامع مسجد کے کسی مسجدیادرگاہ پر کوئی کتبہ نظرنہیں آتااور نہ ہی تاریخی آثار نظر آتے ہیں۔تعمیر نوکوئی بری چیز نہیں لیکن اپنی عظمت رفتہ کی نشانیوں کاتحفظ بھی تو ضروری ہے۔شاید اس پہلو کو ہم بھول چکے ہیں۔
افسوس !مرادآبا دکی تاریخ پر کوئی مربوط ومنظم تحقیقی کام آج تک نہیں ہوسکا۔
جناب معصوم مرادآبادی نے مکمل و منظم ا ورمرحلے وار تاریخ نہ لکھنے کے باوجودبھی تاریخ کے مختلف گوشوں کو ایک کتاب میں یکجاکرکے اب تکمرادآباد کے موضوع پر شائع شدہ تمام کتابوں پر سبقت حاصل کرلی ہے۔چارسوسالہ تاریخ کو 440 صفحات میں سمیٹنا یقینا ایک دشوار عمل تھاجسے معصوم صاحب نے جس سلیقے اور عمدگی کے ساتھ انجام دیا وہ یقینا اُن کے ذوق سلیم کامظہر ہے۔معصوم صاحب کی اس محنت شاقہ کی بدولت تاریخ مرادآباد پر تحقیق کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اپنامنفردمقام اور حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں کئی ایسی شخصیات کے مضامین شامل ہیں جو بجائے خود تاریخ کاحصہ بن چکی ہیں مثلاً ،سر رضاعلی،ڈاکٹر سیّد معین الحق، مظہر جلیل شوق، قرۃ العین حیدر، خورشید مصطفیٰ رضوی ، امدادصابری، ایوب قادری،پروفیسر اصغر عباس وغیرہ وغیرہ۔یہ معصوم صاحب کی اپنے اکابر سے عقیدت ومحبت اور ان کے کارناموں کو محفوظ رکھنے کا جذبہ ہی تو ہے جواِن حضرات کے مضامین کو بعینہٖ شامل کتاب کردیا گیا ہے۔ورنہ اگر وہ چاہتے تو ان تمام مضامین کو توڑ مروڑ کر صرف حوالے پیش کرتے اورنام نہاد محقق کا ٹیگ اپنے نام کے ساتھ لگالیتے،لیکن معصوم صاحب کی دیانت داری نے یہ گوارا نہیں کیا۔
معصوم صاحب نے کتاب کے تمام مشمولات کو چھ ابواب میں تقسیم کیاہے۔پہلا باب ہے ’تاریخ مرادآباد‘ جس میں پانچ مضامین شامل ہیں ،دوسرے باب’ جنگ آزادی اور مرادآباد‘ میں 8مضامین۔ تیسرے باب’ سرسیّد اور مرادآباد‘ میں 5 مضامین،چوتھے باب ’میری یادوں میں مرادآباد‘ میں 6 مضامین شامل ہیں، پانچویں باب’ مرادآبا دکی علمی ،ادبی اور سماجی زندگی‘ میں5 مضامین،چھٹے اور آخری باب ’چند مشاہیر مرادآباد‘میں7 مضامین اور دلکش آفریدی کی ایک نظم بعنوان ’شہر جگر‘ شامل ہیں۔اس کتاب میں کل 36 مضامین ہیں۔ کتاب کو جابجاتاریخی عمارتوں کے بوسیدہ آثار اور یہاں کی اہم شخصیات کے فوٹوئوں سے مزین کیا گیا ہے۔
چوتھے باب میں مظہر جلیل شوق صاحب کا وہ مضمون بھی شامل ہے جو تاریخی اعتبار سے سب سے زیادہ جامع اور مفصل ہے نیزیہ وہ پہلا مضمون ہے جسے پڑھنے کے بعد معصوم صاحب کے دماغ میں اس کتاب کوترتیب دینے کے خیال نے جنم لیا۔معصوم صاحب بڑوں کاادب کس درجہ کرتے ہیںاور اُن کے کارناموں کے تحفظ کی خدمات کس طرح انجام دیتے ہیں ،یہ تو ظاہرہوچکاالبتہ اس سلسلے میں چھوٹوں سے ان کی شفقت کامعترف احقر سے زیادہ کون ہوسکتا ہے کہ مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم کے بھی آٹھ مضامین شامل کتاب ہیں غالباً ہر باب میں ایک مضمون اور کسی باب میں دو مضمون شامل ہیں۔اس کے لیے احقر ان کا شکرگزار ہے۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس کو پڑھتے وقت آپ کی ملاقات شہزادہ مرادبخش اوربانی مرادآباد رستم خاںسے ہوگی تواس کی تعمیر کردہ جامع مسجد کی سیر بھی ہوگی۔صوفیہ کا ذکر ملے گا، مولوی رفیع الدین فاروقی کی علمی جلالت شان اور کفایت علی کافی کی مجاہدانہ سرگرمیاں نظرآئیں گی۔مجو خاں کی شخصیت پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہوگی، صوفی امباپرساد کا قلم وطن عزیز کے لیے شمشیر بنتا نظر آئے گا۔مرادآباد میں سرسیّد کی خدمات کے بارے میں معلومات حاصل ہوگی توان کی شخصیت کے آئینے میں راجاجے کشن داس بھی اترتے نظر آئیں گے تو وہیں مرزاغالب، سرسیّد سے ملاقات کرتے ہوئے سرزمین مرادآبادپرقیام فرما ملیں گے۔سر رضا علی مرادآبا دکے وکیل اور رؤسا کی داستانیں سنائیں گے تو مظہر جلیل شوق مرادآباد کے اہم علما،صوفیہ،اطبا ودیگر اہل کمال سے ملاقات کراتے نظر آئیںگے۔ پروفیسر محمد حسن اس شہر کی گلیوں پر نثار ہوتے دکھائی دیں گے۔تو مرادآباد میں براس کی سلی سے برتن ڈھلنے کاعمل اور ایکسپورٹ کے مرحلے تک پوری کہانی پڑھنے کو ملے گی۔حضرت جگرمرادآبادی کی داستان ملے گی تو قاضی عبدالغفار کے لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری کاذکر بھی ملے گا۔مولاناآزاد کے کاتب خاص منشی عبدالقیوم خطاط کے بارے میں معلومات فراہم ہوگی توعمر دارز بیگ کاذکر کیوں نہیں ہوگا۔مرادآباد میں مسلم لڑکوںکی تعلیم کے لیے پہلے کالج یعنی ہیوٹ مسلم انٹرکالج کے بانی کاذکر ہوگا،مسلم لڑکیوںکی تعلیم کے لیے مولوی عبدالسلام اپنی کوٹھی وقف کریں گے توپھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلررہ چکے مرادآباد کے سپوت سیّد حامد کی کاوشوں کاذکر بھی ضرور ملے۔ماضی بعیدسے ماضی قریب کی طرف آئیں گے تو راحت مولائی کی سیاست،حافظ صدیق کی سادگی،ڈاکٹر شمیم احمدخاں کاایثار، ہمایوں قدیر کی صحافت اور حاجی اقبال کی بے باکی کاذکر بھی ضرورپڑھنے کوملے گا۔حد تو یہ ہے کہ لڈن ڈھنڈورچی،عبداللہ کبابی ،عالم بریانی ،بابورام حلوائی اور فدا حسین نائی بھی اس بزم میں موجود ہیں۔تفریحی مشاغل کی بات کیجیے توافسر خاںمیرٹھی متواترایک ہفتہ تک سائکل چلاتے ہوئے اور سائیکل پرہی نہاتے دھوتے ہوئے دکھائی دیں گے۔وہیں بنے خاں پہلوان ،کشتی کے مقابلے میں عورت سے پچھڑتے نظر گے۔اس کتاب میں یہ تو میں نے بھی پہلی بار پڑھاکہ دریائے رام گنگا کے کنارے کسی تمباکو فروش نے تاج محل بھی بنوایاتھا۔یہ تو چند جھلکیاں تھیں اس کے علاوہ بھی اور نہ جانے کیاکیااس کتاب میں پڑھنے کو ملے گا۔مختصراً معصوم صاحب کی یہ کاوش اپنی نوعیت کی منفرد کاوش ہے۔جس کے لیے اہلیانِ مرادآبا دکو صمیم قلب سے ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ کتاب’خبردارپبلی کیشنز ،دہلی نے شائع کی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل واٹس ایپ نمبر پر رابطہ قایم کیا جاسکتاہے۔9810780563
(نوٹ۔ مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیا جاناچاہئے۔)