رفیق ڈار
جموں وکشمیر میں دنیا کے بہت سے حصوں کی طرح بینک اپنے صارفین کو انشورنس مصنوعات کی ایک وسیع پیکیج پیش کرتے ہیں۔ ان میں لائف انشورنس، ہیلتھ انشورنس، پراپرٹی انشورنس، گاڑیوں کا انشورنساور کریڈٹ سہولت انشورنس شامل ہیں۔
اگرچہ ان پیشکشوں کا مقصد مالی تحفظ اور ذہنی سکون فراہم کرنا ہے لیکن صارفین کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سب کچھ ویسا ہی نہیں جیسا لگتا ہے۔ چمکدار بروشرز اور قائل کرنے والی سیلز پیشکشوں کے پیچھے انشورنس کے فراڈ بینکنگ سیکٹر میں چھپے ہوئے ہیں۔یہ مضمون خطے میں بینکوں کے ذریعے انجام پانے والے کچھ عام انشورنس فراڈز پر روشنی ڈالتا ہے اور ساتھ ہی بیمہ کے باخبر انتخاب کرنے کے بارے میں رہنمائی پیش کرتا ہے۔
منافع بخش گٹھ جوڑ:۔
انشورنس مصنوعات بینکوں کے لئے اتنی اہم کیوں ہیں؟ اس کا جواب ان کافی کمیشنوں میں ہے جو بینک انشورنس کی فروخت کے ذریعے کماتے ہیں۔ یہ کمیشن مختلف آپریشنل اخراجات جیسے کہ کرایہ، ملازمین کی بہبود،اور روزانہ برانچ کے اخراجات بشمول بجلی کے بلوں کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اگرچہ بینکوں کے لئے انشورنس کی فروخت کے ذریعے کمیشن حاصل کرنا مکمل طور پر جائز ہے لیکن مصیبت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ مالیاتی ادارے اپنے صارفین کی فلاح و بہبود پر منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔
غلط بیانی اور غیر ضمانتی واپسی:۔
بینکنگ سیکٹر کی انشورنس پیشکشوں میں ایک واضح مسئلہ انشورنس مصنوعات کی غلط بیانی ہے۔ انشورنس کی فروخت کے ذمہ دار بینک ملازمین اکثر گمراہ کن انداز میں پالیسیاں پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ آپ کو ایک انشورنس پالیسی بیچ سکتے ہیں جس میں گارنٹی شدہ ریٹرن کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں واپس ملنے والے فوائد گارنٹی سے کوسوںدور ہیں۔ اس طرح کے گمراہ کن طریقے صارفین کو اس میں شامل خطرات کو پوری طرح سمجھے بغیر سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
ہیلتھ انشورنس کے نقصانات:۔
ہیلتھ انشورنس ایک اور میدان ہے جہاں جموں و کشمیر میں بینک بعض اوقات اخلاقی معیارات سے گرجاتے ہیں۔ جب گاہک اپنے اور اپنے خاندان کیلئے تحفظ تلاش کرتے ہیں، تو وہ جامع کوریج کی توقع کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ بینکوں کی جانب سے پیش کردہ ہیلتھ انشورنس پروڈکٹس میں پوشیدہ خامیاں ہوتی ہیں جو خاندان کی حفاظت سے سمجھوتہ کر سکتی ہیں۔ ہیلتھ انشورنس خریدنے سے پہلے، شرائط و ضوابط کا بغور جائزہ لینا بہت ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کو وہ کوریج مل رہی ہے جس کی آپ کو ضرورت ہے اور آپ مستحق ہیں۔
قرض کی درخواست پر جبر:۔
قرض حاصل کرنے کی جستجو میں، چاہے وہ ٹرم لون ہو یا کریڈٹ کارڈ لون، صارفین کو اکثر غیر ضروری دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بینک بعض اوقات ایسے حربے استعمال کرتے ہیں جو بلیک میلنگ کی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گاہک قرض کے لئے اہلیت کے تمام معیارات پر پورا اترتے ہیں، تب بھی بینک ان کو یہ یقین دلانے کے لئے صورت حال میں ہیرا پھیری کر سکتے ہیں کہ انھیں استحقاق د یاگیاتھا نہ کہ انکا حق۔ اس عمل میں صارفین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ انشورنس پالیسیوں کے لئے سائن اپ کریں جو وہ نہ ہی چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کی انہیںضرورت ہوتی ہے۔
آگے بڑھنے کاراستہ:۔
ان مسائل کی روشنی میں صارفین کو بینکنگ سیکٹر میں انشورنس فراڈ سے خود کو بچانے کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ جواب باخبر انتخاب کرنے میں مضمر ہے۔ جب انشورنس کی بات آتی ہے تو ضروری چیزوں پر توجہ دیں: زندگی کی کوریج کیلئے ٹرم انشورنس اور احتیاط سے جانچ کی گئی ہیلتھ انشورنس پالیسیاں۔ صرف بینکوں پر انحصار کرنے کے بجائے مارکیٹ میں جامع لائسنس ہولڈرز تک پہنچنے پر غور کریں۔ ان پیشہ ور افراد کو متعدد انشورنس کمپنیوں تک رسائی حاصل ہے جو انہیں آپ کی ضروریات کے مطابق موزوں حل پیش کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ رعایتوں اور منظم پیشکشوں کے فائدے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو اکثر بینکوں کے ذریعے دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔
حاصل کلام:۔
بینکنگ سیکٹر کے اندر انشورنس فراڈ ایک تلخ حقیقت ہے اور صارفین کو احتیاط کرنی چاہئے۔ چوکس رہنے، ماہر سے مشورہ لینے اور بیمہ پراڈکٹس کا دانشمندی سے انتخاب کرنے سے افراد اپنی مالی بہبود کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ جموں وکشمیر میں، جیسا کہ دوسری جگہوں پر، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ صحیح انشورنس کوریج ذہنی سکون اور سلامتی لا سکتی ہے جبکہ غلط انتخاب مالی پریشانی اور پشیمانی کا باعث بن سکتا ہے۔
(رفیق ڈار بینکنگ، فنانس اور انشورنس انڈسٹری میں 10 سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)