عظمیٰ نیوز سروس
ڈھاکہ//بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت نے ملک کی سرکردہ دینی سیاسی تحریک جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اظہر الاسلام کی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا۔ رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس سید رفاعت احمد کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے اپنے پچھلے فیصلے کو منسوخ کر دیا اور کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہ ہونے کی صورت میں اظہرالاسلام کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سینئر رہنما اظہر الاسلام کو 2014 میں ڈھاکا میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) نے سزائے موت سنائی تھی، معزول وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت نے یہ ٹریبونل 2009 میں جنگی جرائم کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے قائم کیا تھا، شیخ حسینہ کو گزشتہ سال طلبہ تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے جماعت اسلامی اور مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے کئی سینئر رہنماؤں کو سزائیں سنائیں، جن میں سے 6 کو پھانسی دی گئی، اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں طویل عرصے سے اس عمل کو سیاسی انتقام اور عدالتی تقاضوں سے عاری قرار دیتے رہے ہیں۔اظہر الاسلام کے وکیل محمد ششیر منیر نے کہا کہ اس فیصلے سے انصاف بحال ہوا ہے، انہوں نے عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ سچائی سامنے آ گئی ہے اور جماعت اسلامی کے رہنما کو انصاف مل گیا ہے۔ششیر منیر کے مطابق عدالت نے پچھلے فیصلے کو انصاف کے نام پر سچائی کا مذاق قرار دیا اور کہا کہ سابقہ فیصلہ شواہد اور گواہوں کا جائزہ لیے بغیر سنایا گیا تھا، عدالت نے فروری میں اظہر الاسلام کو نئی اپیل دائر کرنے کی اجازت دی تھی۔اگرچہ بنگلہ دیش میں بہت سے لوگ آئی سی ٹی کی حمایت کرتے ہیں تاکہ جنگی جرائم کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے، لیکن ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اسے منصفانہ ٹرائل کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہ اترنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اظہر الاسلام کو 1971 کی جنگ کے دوران شمالی رنگپور میں مبینہ طور پر کیے گئے قتل، نسل کشی اور دیگر جرائم کے الزامات پر دسمبر 2014 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمٰن نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جماعت کے طویل عرصے سے کیے گئے سیاسی انتقام کے دعوے درست ثابت ہوئے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ ’اس وقت کے چیف جسٹس ایس کے سنہا نے حسینہ کے اشارے پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو جعلی اور جھوٹے شواہد اور گواہوں کے ذریعے قتل کرانے کی سازش تیار کی تھی‘۔
s