بلال فرقانی
سرینگر//کشمیر کا سب سے بڑا کچرا ٹھکانا ،اچھن اب ایک ماحولیاتی المیہ بن چکا ہے۔ کبھی یہ علاقہ سرسبز کھیتوں اور دلدلی علاقوں پر مشتمل ایک قدرتی آبگاہ نظام تھا، جو دریائے جہلم کے اضافی پانی کو جذب کرنے کے علاوہ جھیل آنچار اورخوشحال سر کو سیراب رکھتا تھا۔ لیکن 1986 میں اسے عارضی طور پر کوڑا ٹھکانہ کے طور پر استعمال کرنے کے بعد آج یہ 123 ایکڑ پر پھیلا ہوا علاقہ فضلہ گاہ بن چکا ہے جہاں کم سے کم 11 لاکھ ٹن کچرا جمع ہے، جس سے زہریلا لیچیٹ بہہ کر نزدیکی آبی ذخائر میں شامل ہو رہا ہے۔پولیوشن کنٹرول بورڈ نے 2019 میں سرینگر میونسپل کارپوریشن کو تحریری طور پر متنبہ کیا تھا کہ اچھن سائٹ جھیل کے بہت قریب ہے اور اگر فضلہ کے مناسب علاج کا انتظام نہ کیا گیا تو یہ ماحول اور پانی کے ذخائر کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔اس انتباہ کے باوجود آج بھی سائٹ بغیر کسی مؤثر صفائی یا لیچیٹ ٹریٹمنٹ کے کام کر رہی ہے۔اچھن علاقہ دراصل سعدپورہ ویٹ لینڈ سسٹم کا حصہ تھا جو جہلم کے فاضل پانی کو جذب کر کے جھیلوں کی سطح برقرار رکھتا تھا۔ اب وہ قدرتی حفاظتی نظام ختم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ زہریلے رساؤ نے لے لی ہے جو آبی حیات اور انسانی صحت دونوں کیلئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔نیشنل گرین ٹریبونل کی مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اچھن ڈمپنگ سائٹ پر زہریلے مائع (لیچیٹ) کو جمع یا صاف کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور یہ آلودہ پانی سیدھے آنچارجھیل میں بہہ رہا ہے، جو اس مقام سے محض 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اسی طرح جموں و کشمیر پولیوشن کنٹرول کمیٹی کی ماہانہ نگرانی میں آنچارجھیل کے5 مقامات سے حاصل کیے گئے نمونوں میںآؤٹ ڈور باتھنگ (بی کلاس)کے معیار پر پانی ناکارہ پایا گیا۔ جولائی 2024 کی رپورٹ میں پانی میں بایو کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ،کل حل شدہ ٹھوس مواد نائٹریٹس، اور فیکل کولائیفام آرگنزمز کی خطرناک سطحیں پائی گئیں، جو براہِ راست کوڑے اور سیوریج کے اخراج کی نشاندہی کرتی ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ آلودگی صرف آنچارجھیل تک محدود نہیں بلکہ بہاؤ کے ذریعے خوشحال سر، گل سر، شالہ بگ ویٹ لینڈ اور یہاں تک کہ ر امسر کنونشن کے تحت محفوظ قرار دیئے گئے ولر جھیل تک پھیل رہی ہے، جس سے وادی کے جڑے ہوئے آبی نظام پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اچھن ڈمپنگ سائٹ سے نکلنے والے زہریلے اجزاء نے آنچارجھیل کے پانی میںداخل شدہ آکسیجن کی مقدار خطرناک حد تک کم کر دی ہے، جس سے جھیل کی آبی زندگی متاثر ہو رہی ہے اور انسانی استعمال کے لیے یہ پانی مضر صحت بن چکا ہے۔ پانی میں تیزابیت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس سے جھیل کے قدرتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ماہرِ ماحولیات اور آر ٹی آئی کارکن ڈاکٹر راجہ مظفر کے مطابق’’اچھن سے بہنے والا لیچیٹ آنچارجھیل، خوشحال سر، گل سر اور حتیٰ کہ شالہ بگ ویٹ لینڈ ، جو ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ر امسر سائٹ ہے ،تک پہنچ رہا ہے۔ یہ ایک ماحولیاتی تباہی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہی ہے۔‘‘ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں دھان کے کھیت، صاف پانی کے چشمے اور سبزہ زار تھے، اب فضا میں بدبو، مکھیوں کا غلبہ اور بیماریاں عام ہیں۔ صورہ، عیدگاہ، بہلوچی پورہ اور نوشہرہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی بھی آلودہ ہو چکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔