وردہ فاطمہ
رات کی ابر آلود فضا میں بھی گرمی اپنے عروج پر تھی۔ چاند بادلوں کے ساۓ میں دھندلا گیا تھا۔ ہر سمت گھٹن تھی۔ ہوا کا جھونکا تو دور، ہوا سے ہلتا معمولی پتا بھی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ گرمی کی شدّت سےحوجمت کی نیند میں بھی خلل پیدا ہو رہا تھا۔ دن بھر یونیورسٹی میں تھکی ہاری حوجمت کبھی کروٹیں بدلتی تو کبھی لحاف پھینک دیتی لیکن بے چینی صادر تھی۔ اب جونہی آنکھ لگ جاتی تو یہ ناچیز لیکن ظالم مچھر کاٹ کر اذیّت میں اضافہ کرتے۔ نصف رات گزرنے کے بعد گرمی میں ذرا بھر کمی درپیش ہوئی تو حوجمت خوابوں کی نیند سو گئی۔
اک عجب سا قصّہ درپیش تھا۔ ماحول ظاہری تو پُر سکون محسوس ہو رہا تھا لیکن اندر ہی اندر گٹھن تھی۔ لوگ خوش نظر تو آ رہے تھے لیکن گھروں کے اندر ویرانگی تھی۔ دیئے گل تھے۔ روشنی عدم موجود تھی۔ حوجمت شمع روشن کر کے کچھ پرانی یادیں تازہ کرنے لگی۔ اس نے اپنی نانی امّی کا دیا ہوا البم کھولا جو اس کی نانی امّی نہایت تحفظ کے ساتھ الماری میں رکھا کرتیں، ہر خطرہ سے بچا کربالکل اسی طرح جس طرح ماں اپنے آنچل میں بچّےکوچھپا کر بارش اور کڑی دھوپ سے بچائے رکھتی ہے، محفوظ جگہ۔ تصویروں سے البم بننے میں بھی اک عرصہ لگ گیا تھا۔نانیامّی نے بھی نہایت محنت سے تصاویر کو سمیٹ کر اکٹھا جوڑا تھا اور یہ البم بنا رہا تھا جیسے رشتے جوڑ کر خاندان زیرِ وجود آتا ہے اور نانی امّی سمیٹ و تحفظ کاہنرخوبجانتیں تھی۔ نانا ابّو ہر سال دو سال بعد اس پر نیا کوور چڑھا لیتے اور یقینی بناتے کہ کسی بھی تصویر پر کسی قسم کا کوئی داغ دھبہ یا گردہ نہ ہو۔ بعض اوقات تو اس پر بھی خوشبو چھڑکتے کیونکہ وہ عطر اور عرقِ گلاب کی خوشبو بڑے شوق سے خود بھی لگاتے اور گھر کے بچّوں کو بھی خود زبردستی لگاتے تھے۔ عرقِ گلاب کی یہ خوشبو انکی خوش باش شخصیت اور شیریں کلامی کے جوہر کا جاوید بیان پیش کرتی تھی۔شاید کچھ تصاویر، کچھ البم، کچھ لمحے، کچھ رشتے نہایت قیمتی ہوتے ہیں جن کو محفوظ رکھنا اتنا ہی ضروری بنتا ہے جتنا زندہ رہنے کے لئے سانس لینا یا جیسے والدین کے لئے اولاد کا پاس ہونا۔ حوجمت شمع کی مدہم روشنی تلے یہ البم کھولتی ہے تو اس کے آبدیدہ چشموں سے آنسوں ٹپک کر البم پر گرتے ہیں۔ البم کی شفاف لیمینیٹڑ (Laminated) سطح پر آنسوں گر کر بے تحاشا چمکنے لگے۔ گویا کہ یہ یادوں سے لپٹی تصاویر جیسے البم سے باہر نکل آئی ہوں۔بالکلسامنے،پورے وجود کے ساتھ۔ ہر لمس کو محسوس کرتے، دھڑکتے قلب کی صدا پیش کرتے۔ حوجمت حیران تھی۔ کیا واقعی ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد یہ ملن کادنتھا۔ بارہ سال کی جدائی کے بعد کا ملن۔ہجر و وصال کا سماں۔ حوجمت کافی خوش تھی۔ اس کے گرد و نواح کے ماحول میں خوشی کی لہر دوڑی۔ سورج مُکھی بھی آج پُر مسّرت اور دلفریب انداز سے کھلنے لگے تھے گویا اک لمبی مدّت کے بعد آنے والوں کا استقبال کر رہے ہوں۔ گلاب کے پھولوں کی مہک سے چمن معطر تھا۔ تمام گھر والے، دوست احباب شادمان تھے۔ خاص طور پر نانا ابّو اور نانیامّی خوش و خرّم تھے۔ کیسے نہ ہوتے،انکےالبم میں برسوں بعد جان پھونکی گئی تھی۔ رات کا وقت ہوا تو سب اپنے اپنے کمروںمیںآرام فرما ہوئے۔ حوجمت نے کھڑکی سے پردہ ہٹایا تو اس کی نظر آسمان میں چمکتے چاند پر گئی۔ چودھویں کا چاند بننے میں ابھی لگ بگ ہفتہ باقی تھا تو آدھا چاند آسمان پر چمک رہا تھا۔ حوجمت کا دھیان اس چمکدار لیکن آدھے چاند پر مرکوز ہوا۔ وہ سوچنے لگی کہ شاید کچھ ہی فاصلے پر چاند کا دوسرا حصّہ بھی نظر آ رہا ہو۔ کیونکہ کبھی کم فاصلہ بھی بہت زیادہ بنتا ہے۔ چند میٹر کی دوری سے ہی تو الگ گھر، محلّہ، الگ گاؤں ، الگ ریاست اور الگ ملک کا وجود ہوتا ہے اور یہ چند میٹر کی دوری سینکڑوں کلو میٹر کی مانند بنتے ہیں۔ کافی دور، کٹھن فاصلہ۔ حوجمت کو کچھ ہی منٹ میں یہ خیال بھی آیا کہ کیا پتا دوسری جانب چاند کا وہ آدھا حصّہ دھندلا گیا ہو۔ کیا معلوم وہاں تاریکی ہو۔ ویسی ہی تاریکی جیسے کچھ عرصہ پہلے حوجمت کے ہاں اس جانب تھی۔ ہجر، جدائی اور منتظر نگاہیں۔
سب کچھ حسبِ معمول چل رہا تھا۔ البم کے لوگ بھی روز مرہ زندگی کا حیات حصّہ بن گئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ملن کم تو ہوا لیکن یہ تسلی ضرور تھی کہ سب ساتھ تھے۔ ہر دردبانٹتے، ہر خوشی ساتھ مناتے۔ لیکن قسمت کی لکیریں کب اورکہاں موڑ کھائیں، دنیا والے اس سے لا علم ہیں۔ البم میں دوبارہ یادوں کا سلسلہ بڑھ گیا اور شدّت پہلے سے زیادہ تھی۔ اب اس کو محفوظ رکھنا زیادہ ضروری بھی بن گیا اور مشکل بھی کیونکہ البم کے محافظ فانی دنیا سے ابدی دنیا کا سفرطے کر چکے تھے۔ یہ جدائی، ملن اورامید کا سفر تھا۔ کتنا دردناک تھا یہ دوبارہ جدائی کا منظر۔ پہلے سے بھی زیادہ اذیّت ناک۔ پرانے لوگوں کے ساتھ نئے لوگوں کی جدائی بھی جڑ گئی تھی۔ نئی نسل کی جدائی کا نیا دکھ جمع ہو گیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایسی جدائی کہ گویا جسم سے دل کو نکالا گیا ہو اور دونوں کو ایک دوسرے کے بغیر زندگی گزارنے کا حکم ہو۔ جیسے جگر گوشوں کو میدانِ حیات میں گھر سے دور بِنا سربراہ کےکشمکشِ حیات کے لئے چھوڑا گیا ہو اور گھر لوٹنے کے تمام راستے بند ہوں۔ اس اذیّت ناک مرحلے کے غم میں حوجمت اشک آورشب کی خاموشی میں آنگن میں بیٹھی تھی۔اسے اب رات کی وحشت ، شب کی تاریکی خوفناک نہیں لگتی تھی کیونکہ وہ اب اس کی عادی ہو گئ تھی۔ غمِ باطن کی شدّت جب حد سے بڑھ جائے ، زندہ دل جب جدا ہو جائیں تو ظاہری وحشت، خوف اور درد کافی کم محسوس ہوتا ہے۔ حوجمت اسی شبِ ہجر کی درد بھری یادوں میں کھوئی تھی کہ اس کا دھیان اچانک آسمان پہ نمایاں دھندلے چاند کی اور گیا۔ آدھا چاند بادلوں کے پیچھے چھپا تھا اور واضع نمایاں نہیں تھا۔ اسے بے اختیار پروین شاکر صاحبہ کی غزل کے چند اشعار یاد آگئے:
پورا دکھ اور آدھا چاند
ہجر کی شب اور ایسا چاند
دن میںوحشت بھی لگی
رات ہوا اورنکلاچاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہاہےتنہاچاند
میری کروٹ پر جاگ اٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بُھولا چاند
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند
اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند
اس کی سوچ کچھ برس پیچھے لوٹ گئی ۔ایک لمبے عرصہ پہلے بھی اس نے ایسے ہی یادوں سے جڑے آدھے چاند کو دیکھا تھا۔ اسے وہ تصویر ذہن نشین تھی۔ وہ چاند بھی آدھا تھا لیکن روشن، چمکدار، خوشیوں سے نوریز۔ اس نے تب سوچا تھا کہ شاید دوسری جانب کچھ فاصلے پر اس چاند کا دوسرا حصّہ دھندلا ہو۔ آج دوبارہ یہی سوچ اس کے ذہن پر چھا گئی لیکن آج اس کا متبادل تھا۔ آج یہ آدھا چاند یہاں دھندلا گیا تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسری جانب اس کا آدھا حصّہ روشن ہو۔ ہر سوٗ چمکدار۔ فضا بھی رنگین ہو گویا کسی کا مدّت کے بعد استقبال ہو رہا ہو۔
حوجمت اسی سوچ میں مگن چاند کو تکتے رہ گئی کہ اسے اچانک اپنی امّی کی آواز سنائی دی جو کچھ دیر سے اسے بلا رہی تھی۔ حوجمت چونک کر بستر سے کھڑی ہوگئی اور گھبرا سی گئی ۔ اس کی امّی نے اس کے رخسار پر ہاتھ پھیر کر پوچھا کہ کیا بات ہے؟ یوں گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟میں کچھ وقت سے تمہیں جگانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن تم جاگ ہی نہیں رہی تھی۔ حوجمت نے نارمل ہونے کی کوشش کی اور امّی کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یونیورسٹی میں گزشتہ دن کافی تھکن کی وجہ سے گہری نیند سو گئی تھی۔ وہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گئی اور پردہ ہٹا کر آسمان کی جانب دیکھنے لگی۔ اس نے یہ کیسا عجیب خواب دیکھا تھا۔ جدائی، ملن اور آدھا چاند۔ وہ شکر کرنے لگی کہ یہ خواب ہی تھا۔لیکن وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ کیا یہ خواب کبھی حقیقت ہو سکتا ہے؟ کیا لوگ زندہ جدا ہو سکتے ہیں اور کیا یہ زندہ جدائی قابلِ برداشت ہو سکتی ہے؟ کیادل کے قریب لوگ دنیا میں ہی اتنا دور جا سکتے ہیں کہ دوبارہ ملنا محال بن جائے؟ اپنوں سے رابطہ بر قرار رکھنا اتنا مشکل بن جائے کہ گویا کوئی جرم ہو۔ کیا ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی خیر خبر دریافت کرنا نا ممکن سا بن سکتا ہے؟ کیا دنیا والوں کی لگائی گئی یہ غیرانسانی بندشیں اس قدر دردناک ہو سکتی ہیں؟ وہ سوچنے لگی کہ اگر حقیقتاً یہ معاملہ درپیش ہو تو صرف ‘اُمید ہی زندہ رہنے کا واحد ذریعہ بنتی ہو گی۔ ملن کی امید، ہجر کے بعد وصال کی امید، بندشیں ہٹائی جانے کی امید، دوستی کی امید، حالات سنبھلنے کی امید ، صرف امید۔ وہ اس اضطراب کے عالم میں لفظ امید کو اپنے ذہن میں بار بار دوہرا رہی تھی کہ اذان بلند ہو گئی۔”اللہ اکبر اللہ اکبر..اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔” واقعی اللہ سب سے بڑا ہے۔ کائنات کی ہر شعے سے بڑا، دنیا کی ہر طاقت سے بڑا۔ بادشاہوں کا بادشاہ، حکمرانوں کا حکمران۔ “کُن فَیَکوُن ” کی طاقت رکھنے والا۔ نا ممکن کو ممکن بنانے والا۔ نا امیدی کو شرک کہنے والا۔ پُرامید ہو کر دعا گو ہونے والوں کا سننے والا (انشاءاللہ)۔ نہایت عظیم و شان ذات۔
���
طالبہ سکواسٹ کشمیر، واڑورہ
ای میل؛[email protected]