قیصر محمود عراقی
اولاد اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی خواہش ہر شادی شدہ جوڑے کو ہو تی ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جا نتا ہے کسے اولا دسے نوازنا ہے اور کسے اولاد سے نہیں نوازنا۔ اللہ تعالیٰ جو کر تا ہے اپنے بندے کی بھلائی کے لئے کر تا ہے ۔ یہ تو ہم کم عقل لوگ ہیں جو وقتی پریشانیوں کو برداشت نہیں کر تے اور اولاد کے حصول کے لئے اُلٹے سیدھے راستے اختیار کر لیتے ہیں ۔ اگر اللہ نے آپ کو اولاد سے نہیں نوازناتو ساری دنیا کے لوگ جو مرضی جتن کر لیں، آپ اولاد سے محروم ہی رہیں گے، اور جب اللہ نے آپ کو اولاد دینی ہے تو ساری دنیا کے لوگ جو مرضی جتن کر لیں آپ کو اولاد مل کر رہے گی ۔ کس کو بیٹی دینی ہے اور کسے بیٹا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں ،علاج کرانا اچھی بات ہے لیکن شفا کی امید اللہ تعالیٰ سے ہی رکھنی چاہئے لیکن ہاں علاج کے دوران شیطانی حربوں کو استعمال کر نے سے گریز کریں ۔
ولادت کے وقت انسان کے دونوں ہاتھوں کا بندھا ہو نا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ زندگی کی سواری پر حریص ہے اور موت کے وقت دونوں ہاتھوں کا کھلا ہو نا اس بات کی دلیل ہے کہ مردہ کہہ رہا ہے کہ دیکھو میں اس زندگی کے گھر سے خالی ہاتھ جا رہا ہوں ۔ میں نے بہت لوگوں کو دھوکے دیئے ، پیسہ بٹورے، جوئے کھیلے ، پراپر ٹی پر ناجائز قبضہ کیا ، پیسوں کے خاطر بھائی کو مار ڈالا ، بہن کا حصہ کھا گیا ، باپ کو غلط وارثت تقسیم کر نے پر مجبور کیا ، غریب لوگوں سے یہ جانتے ہو ئے کہ وہ پیسہ نہیں دے سکتے ،رشوت لی ، پیسہ کمانے کے لئے جھوٹے کو سچا ثابت کر ڈالا ، لوگوں کو ملاوٹ شدہ چیزیں فروخت کر تا رہا ، آج موت نے میرا کام تمام کر ڈالا ، آج میں قبر کے سپرد ہو نے جا رہا ہوں اور اُس قبر میں جو عذاب کی وادیاں مجھے نظر آ رہی ہیں تم زندہ لوگوں کو نظر نہیں آ رہیں، زمین پر بہت نا انصافیاں کی آج زمین مجھ سے بدلہ لینے کے لئے بے تاب ہے، تو بہ کے دروازے بھی آج مجھ پر بند ہو گئے ، کاش ! میں زندگی غفلت میں نہ گزاری ہو تی۔
سماج کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے جنہیں اُن کے والدین حرام کی کمائی کھلا رہے ہیں، ان بچوں کو حلال حرام کے بارے میں بچپن سے ہی لا علم رکھا جا تا ہے ۔ بچوں کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ ابو جان لوگوں کو دھوکہ دیکر اور رشوت لے کر بے پناہ پیسہ کما رہے ہیں اور ہماری ہر جائز و ناجائز خواہشات پوری کر رہے ہیں ۔ ہم اپنے بچوں کے تازہ و شفاف لہو میں حرام کی کمائی کا زہر گھول رہے ہیں ۔ یہ ایسا زہر ہے جس کے اثرات اولاد کے جوان ہو جا نے کے بعد شدت سے ظاہر ہو تے ہیں ۔ اس زہر کا بیٹیوں پر ایسا اثر ہو تا ہے کہ وہ جوان ہو کر غیر مردوں کے ساتھ غلط کام کر نے لگتی ہیں ، گھروں سے بھاگ نکلتی ہیں وغیرہ ، اور بیٹے شراب ، نشہ ، زنا وغیرہ کر نے لگتے ہیں ، حرام کمانے والے والدین کو کان و کان خبر تک نہیں ہو تی کہ ان کی اولاد کن حرام کاموں میں مبتلا ہو گئی ہے اور جس دن والدین کو اپنی اولاد کی حرام کا ریوں کا پتہ چلتا ہے تو سر پر ہاتھ رکھکر روتے ہیں ۔ بھئی ! حرام کا لقمہ اولاد کے خون میں اپنا اثر تو دکھا ئے گا ۔ یاد رکھو ! کاغذ کے نوٹ نہیں بلکہ نیک اولاد اور اولاد کی عزت آپ کا حقیقی سرمایہ ہے ۔
بچہ معصوم پیدا ہو تا ہے۔ والدین پر فرض ہے کہ بچوں کی اچھی تر بیت کریں ۔ آج کل یہ عام ہے کہ بچہ جب پیدا ہو تا ہے تو اُس کو ’’گھٹی ‘‘دینے کے لئے جو چیز خریدی جا تی ہے وہ بھی حرام کی کمائی سے خریدی جا تی ہے ۔ بیشتر والدین اپنی اولاد کے پیدا ہو تے ہی حرام کمائی سے تو بہ کر لیتے ہیں اور بہت سارے والدین اولاد کی پیدائش کے بعد حرام کی کمائی کے ذرائع بڑھا دیتے ہیں ۔ یاد رہے،میں سب والدین کی بات نہیں کرر ہا ہوں، یہ تحریر صرف اُن والدین کے لئے منظر عام پر لا رہا ہوں جو اپنے بچوں کے لہو میں حرام کی کمائی کا زہر گھول رہے ہیں۔ بہت اچھے اچھے والدین بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی نیک کمائی سے بچوں کی پر ورش کر تے ہیں اور بڑھا پے میں اچھی تر بیت کا پھل پا تے ہیں ۔ نیکی اور بدی کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتی ۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ جب کوئی شدید بیمار ہو تا ہے تو اُسے کیا ڈاکٹر زہر کھانے کو کہتے ہیں ،نہیں۔ بلکہ اگر مریض زہر یلی چیزوں کا استعمال کربھی رہا ہو تا ہے تو ڈاکٹرز اُسے اُن زہریلی چیزوں سے پر ہیز بتاتے ہیں تا کہ مریض کی صحت بہتر ہو سکے ۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب ہم اولاد کے حصول کے لئے اتنے جتن کر تے ہیں ، دن رات دعائیں مانگتے ہیں ،جعلی پیروں کے پاس جا تے ہیں ، دنیا کا کوئی کو نہ نہیں چھوڑنے ، دنیا کا کوئی علاج نہیں چھوڑتے کہ جس سے اولاد حاصل ہو جا ئے ۔ تو جب اولاد پیدا ہو جا تی ہے تو اُسے آپ پیدا ہو تے ہی حرام کی کمائی کی ’’ گٹھی ‘‘ کیوں دیتے ہیں ؟ پھر جب آپ بچے کی پیدائش سے لے کر جوان ہو نے تک اُسے حرام کی کمائی کا پیسہ کھلاتے ہیں تو اُس بچے کے جوان ہو جا نے کے بعد اُس سے اپنے لئے اچھے کی امید کیوں رکھتے ہیں ؟ بچہ دنیا سے بے خبر پیدا ہو تا ہے ۔ دنیا میں آکر اپنے باپ کو دیکھتا ہے کہ کیسے لوگوں کو چکر دے رہا ہے اور پیسہ کما رہا ہے اور جوان ہو کر باپ کی حرام کی کمائی والی لائن پر چل نکلتا ہے۔
لہٰذاحرام کمائی کما کر خود کو کا میاب تر ین انسان مت سمجھیں، ہمارے نصیب کا جو رزق ہے ،اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے، مل کر رہے گا۔ حرام رزق آپ نے اپنی قسمت میں لکھا ہے ۔ حرام کمائی کر کے آپ دنیا میں بھی نقصان اُٹھا ئینگے ، مر نے کے بعد قبر کے عذاب میں بھی مبتلا ہو نگے اور روز قیامت جو حرام کمائی والوں کا حال ہو گا ،سن کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں ۔ ہمارے سماج کے حرام کمانے والے افراد خو د کو بہت سمجھدار ، سیانا یا فنّے خان سمجھتے ہیں ۔ شریف لوگوں کو دھوکا دینے کا ایک سے ایک نیا طریقہ نکالتے ہیں ۔ اللہ نے آپ کو زمین پر اختیار ات د یئے اور آپ اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کر دہ مخلوق کو ذلیل و خوار کر رہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ کے سامنے کس منہ پیش ہو نگے ؟ اس لئے حرام کمائیوں سے توبہ کر لیں۔ آج ہم سب موت کو بھول گئے ہیں لیکن موت آج نہیں تو کل آکر رہے گی اور پھر اللہ کی پکڑ میں آسکتے ہیں ، جس اولاد کے لئے آپ حرام کی کمائی کر تے ہیں ،وہ اولاد ہی آپ کی عبرت ناک موت کا سبب بن سکتی ہے ۔ خدا نخواستہ عبرت ناک موت کے تاریخی واقعات میں ایک واقعہ آپ کی عبرت ناک موت کا بھی شامل ہو سکتا ہے ۔
رابطہ۔6291697668