شبیر احمد بٹ
وادی گلپوش میں بھی آئے دن دل دہلانے والی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔شاید ہی کوئی دن گزرا ہو جب مبینہ عصمت ریزی ،چھیڑ خوانی کی خبریں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔معصوم اور نابالغ بچیوں کے ساتھ درندگی کے ان واقعات میں اضافہ کئی چیزوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے درندگی کی حدیں پار کرنے والے ان مجرموں کو آبرو روئی کرنے کا پروانہ دے دیا گیا ہو۔ہر بار یہ دل چیرنے والے واقعات شہ سرخیاں بن جاتے ہیں اور مجرموں کے خلاف سخت سزا اور سخت قانون لاگو کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔خوب شور مچایا جاتا ہے اور ہر بار درندگی کے ان معاملات پر ہونے والی بحث ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور الزام تراشیوں پر ختم ہوجاتی ہے۔یہاں تک کہ اس قسم کی دوسری خبر سرخیوں کی جگہ لے لیتی ہے۔یہاں عرصے سے یہی ہوتا آیا ہے۔
روز کا یہ مشغلہ ہے حادثہ کوئی نہیں
شہر آتش ناک کا منظر نیا کوئی نہیں
جب اس طرح کے مجرموں اور درندوں کے خلاف سنگین قسم کی کاروائیاں نہ ہوںتوقانون کاخوف ان کے دلوں سے نکلتا جائے گا۔مجرموں کو سزا دلانا قانون کی ذمہ داری ہے لیکن ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ہمارے یہاں آئے روز معصوم اور نابالغ بچیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیاں اور چھیڑ خوانی تشویشناک ہیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ ان معصوم بچیوں کو حالات حاضرہ سے واقف کرائیں۔ان بچیوں کو یہ شعور نہیں ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھیں۔اس لئے وہ دوسروں کے بہکاوے میں آجاتی ہیں۔انہیں سمجھایاجائے کہ گھر میں،پڑوس میں اور باہر سارے لوگ اچھے نہیں ہیں،سکول اور ٹیوشن جانے والی نو عمر لڑکیوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ والدین کے ساتھ اپنی ہر بات کو شیئر کریں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو بچپن سے ہی فیشن اور زیبائش و آرائش کے ایسے طور طریقوں کی مشق کراتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نظروں میں جلدی آجائے۔لباس اور فیشن کا یہ بھوت ان جرائم کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ فحش اور عریاں فلمیں،ٹی وی سیریل،گندے اور مخرب اخلاق کتب و رسائل،شادی بیاہ اور تقاریب کے مواقع پر نیم عریاں رقص،شہوت انگیز پوسٹر اور تصاویر،جنسی اشتعال پیدا کرنے والے اشتہارات، مختصر اور تنگ لباس،بازاروں اور تفریح گاہوں میں مردوں اور عورتوں کا میل ملاپ،شراب اور دیگر منشیات کا آزادانہ استعمال وغیرہ عصمت ریزی اور بدکاری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے وجوہات ہیںاور ان ساری چیزوں کے مجموعے کا نام موبائل ہے جو ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں تھما کر بے خبر ہوجاتے ہیں اور انہیں ان تمام برائیوں اور بدعتوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔اس کے بعد جب ایسا کوئی انسانیت سوز اور دلدوز حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہمیں اتنا زیادہ پچھتاوا یا درد بھی نہیں ہوتا ہے۔اب اگر کسی کو ہوتا بھی ہے تو ہم یہ کہتے ہوئے نکل جاتے ہیں کہ
تم ابھی شہر میں کیا نئے نئے آئے ہو
رک گئے راہ میں یوں حادثہ دیکھ کر
ای میل۔[email protected]