ہلال بخاری
ہمارے سماج میں دانشوروں، عالموں اور واعظوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے جو ہر سماج کے لئے خوش آئند بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نفرت ، عداوت اور کدورت کا بڑھنا ایک المیہ ہے۔
محبت اور ہمدردی میں جو کشش ہے وہ غصے اور نفرت میں نہیں۔ دانا لوگ شفقت کا استعمال کرکے دشمنوں کو دوست بناتے ہیں اور نادان اور کم علم غصے سے اپنے دوستوں کو بھی کھو دیتے ہیں۔ یہ جو فخر اور غرور سے حق اور سچ کو جاننے کے دعوے پیش کرتے ہیں شاید اس دنیا کے سب سے ادنیٰ مفکر ہیں۔ اس عظیم قوم کی رہبری کے دعوے کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ انکے غصے سے سہم کر لوگ انکے نظریے کے قائل ہونگے تو ان سے بڑا بے وقوف کون ہوسکتا ہے ؟
کیا آپ کسی کے غصے سے قائل ہوتے ہیں ؟ اگر نہیں تو آپ کیوں آگ بگولہ ہوکر دوسروں کو ڈراتے ہیں۔ کچھ سال کی پڑھائی کے بعد آپ کس طرح اپنے آپکو عالم فاضل سمجھتے ہیں اور اس غلط فہمی کے شکار ہوجاتے ہیں کہ آپکی نظر سب سے وسیع ہے ؟ کیا علم کا میدان اتنا تنگ ہے کہ آپ سے اختلاف کرنے والے کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ؟یہ قوم کے معمار یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ آگ بگولہ ہوکر وہ مقبول ہونگے اور ہر دانش مند شخص انکی تقلید کرلے گا ؟
یہ لوگ کہتے ہیں کہ کثیر تعداد میں ہمارے نوجوان اپنی راہ کھو چکے ہیں اور گمراہ ہوچکے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ جس قوم کے رہبر ہی آپس میں نفرت پھیلانے لگیں اور بات بات پر جھگڑنے لگیں،اس قوم کے نوجوان بھلا نفرت کی اس آندھی میں در بدر بھٹکنے پر مجبور کیوں نہ ہوں ؟ کون ہے جو محبت اور شفقت سے انکے سر پر ہاتھ رکھ کر انکی صحیح رہبری کرے گا ؟ آپ ان میں سے کچھ تو وحشی گدھوں کی طرح ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے زخمی اور بے جان جسموں کو نوچنے میں لگے ہیں۔ کون ہے جو ان میں جینے کی آس جگا کر انکو صحیح سمت سے آگاہ کرنے کا کام انجام دے گا ؟
ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ بس وہی اور اُس کے ماننے والے لوگ ہی صحیح راستے پر گامزن ہیں اور باقی سب لوگ گمراہی کی اور محو ِ سفر ہیں ،تو کیا ان بھٹکے ہوئے لوگوں کو محبت سے نہیں سمجھایا جاسکتا ؟ کیا ہمارے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور شفقت سے لوگوں کو قائل نہیں کیا ؟ کیا انکی یہ سنت ان دانشوروں ، واعظوں اور عالموں کے لئے سب سے کارآمد ثابت نہیں ہوسکتی ہے؟کیا ایک انسان کیلئے یہ بہتر نہیں کہ وہ دوسرے انسانوں سے زیادہ محبت اور شفقت سے پیش آئے تاکہ ہمارا سماج امن و امان سے ترقی کے منازل طے کرے؟
کیا ان ’’علماء‘‘ کے انداز بیان اور شورو غل سے اس غلط فہمی کو تقویت نہیں ملتی کہ مذہب نفرت، غصے اور عداوت کا نام ہے ؟۔ ان آتش انگیز مقررین کو کس نے یہ غلط فہمی اپنے دماغ میں پالنے پر مجبور کیا کہ نفرت کی کثرت سے آگ بگولہ ہونے سے انکی عزت لوگوں میں بڑھ جائے گی ؟۔محبت کا سبق انسانیت نے عظیم پیغمبروں اور خدا کے دیگر پاک بندوں سے سیکھا ہے۔ نفرت کا یہ کارو بار ان نام نہاد رہبروں نے کس سے اور کہاں سے سیکھا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا؟
کیا انکے آتش افروز بیان سن کر اور انکا نفرت سے لبریز طرز عمل دیکھ کر یہ احساس ہونا واجب نہیں کہ اگر انکو کبھی مستقبل میں موقع ملے تو یہ اپنے سارے مد مقابلوں کا اور ان لوگوں سے اختلاف رکھنے والوں کا صفایا کرنے میں چنداں دیر نہیں لگائیں گے ؟۔ایسے آتش فشاں جیسے دہان رکھنے والے افراد کے لئے ہم صرف اب یہ دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انکو محبت، شفقت اور ہمدردی سے آشنا کرے جس کے بغیر یہ سماج کے لئے کسی بارود سے کم نہیں جو خدا نہ خواستہ اسے تباہ وبرباد کرکے رکھ دے گا۔
پتہ۔ہردوشورہ کنزر،ٹنگمرگ ،بارہمولہ کشمیر
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور ان کو کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے ۔)